Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
 
Hadith   2048   الحديث
الأهمية: جاهدوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم


Tema:

مشرکین کے ساتھ اپنی جان، مال اور زبان کے ذریعے جہاد کرو۔

عن أنس -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «جَاهِدُوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم».

انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”مشرکین کے ساتھ اپنی جان، مال اور زبان کے ذریعے جہاد کرو۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- المؤمنين بالجهاد الذي يكون تحت سلطة إمام، وتحت راية مؤمنة واحدة، ويكون لإعلاء كلمة الله لا لأغراض دنيوية، ويكون بالآتي:
المال: وذلك بإنفاقه على شراء السلاح، وتجهيز الغزاة، ونحو ذلك.
وأما النفس: فبمباشرة القتال للقادر عليه، والمؤهل له، وهو الأصل في الجهاد، كقوله -تعالى- :(وجاهدوا بأموالكم وأنفسكم).
وأما اللسان: فبالدعوة إلى دين الله -تعالى- ونشره، والذود عن الإسلام، ومجادلة الملاحدة، والرد عليهم، وبث الدَّعوة بكل وسيلة من وسائل الإعلام، لإقامة الحجة على المعاندين، وبالأصوات عند اللقاء والزجر ونحوه من كل ما فيه نكاية للعدو (ولا ينالون من عدو نيلا إلا كتب لهم به عمل صالح)، وبالخطب التي تحث على الجهاد، وبالأشعارفقد قال -صلى الله عليه وسلم- «اهجوا قريشا فإنه أشد عليهم من رشق النبل» رواه مسلم.
606;بی ﷺ نے مؤمنوں کو جہاد کا حکم دیا ہے، جو حاکم وقت کے زیر نگرانی اور ایک مؤمنانہ جھندے کے نیچے عمل میں آتا ہے۔ جہاد دنیوی مقاصد کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے درج ذیل چیزوں کے ذریعہ کیا جائے گا:
مال کے ذریعے: اسے آلاتِ حرب کی خریداری اور غزوے کی تیاری وغیرہ میں خرچ کیا جائے گا۔
جان کے ذریعے: طاقت و قوت اور اہلیت رکھنے والے کے لیے بالمشافہ قتال کرنا۔ یہی اصل جہاد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَجَاهِدُوا بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ﴾”اور اپنے مالوں اورجانوں کے ذریعہ جہاد کرو“۔
زبان کے ذریعے :اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت اوراس کی نشر واشاعت، اسلام کا دفاع، ملحدین کے ساتھ مناظرہ، ان کی تردید اور دعوت کومختلف وسائلِ اعلام کے ذریعے عام کرنا؛ تاکہ سرکش مخالفین پر حجت قائم ہو، ان سے مڈبھیڑ کے وقت شور اور زجر وتوبیخ وغیرہ ہر وہ کام جس میں دشمنوں کی سرزنش ہو۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ﴾”اور دشمنوں کی (جنھوں نے بھی) جو کچھ خبر لی، ان سب پر ان کے نام (ایک ایک) نیک کام لکھا گیا“. اور ایسےخطبات واشعار کے ذریعہ جو جہاد پر ابھاریں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ” کفار قریش کی ہجو کیا کرو؛ کیوں کہ یہ ہجو ان پر تیر مارنے سے زیادہ سخت ہے۔ “ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64597

 
 
Hadith   2049   الحديث
الأهمية: قول عائشة: استأذنت النبي -صلى الله عليه وسلم- في الجهاد، فقال: «جهادكن الحج»


Tema:

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپ ﷺنے فرمایا : ’’تم عورتوں کا جہاد حج ہے"

عن عائشة أم المؤمنين -رضي الله عنها- قالت: استأذنت النبي -صلى الله عليه وسلم- في الجهاد، فقال: «جهادكن الحج».

اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے جہاد کی اجازت چاہی، تو آپ ﷺنے فرمایا : "تم عورتوں کا جہاد حج ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن عائشة أم المؤمنين -رضي الله عنها- أنها طلبت من النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يأذن لها أن تجاهد معه طلبًا لفضل الجهاد، فبين النبي -صلى الله عليه وسلم- أن مباشرة الجهاد وقتال الأعداء ليست مشروعة في حق النساء؛ لما يتصفن به غالبًا من ضعف البدن، ورِقة القلب، وعدم تحمل الأخطار، ولا يمنع ذلك قيامهن بعلاج الجرحى، وسقي العطشى، ونحو ذلك من الأعمال.
فقد جاء في الصحيح من حديث أم عطية -رضي الله عنها- قالت: غزوت مع رسول -صلى الله عليه وسلم- سبع غزوات، أخلفهم في رحالهم، فأصنع لهم الطعام، وأُداوي الجرحى، وأقوم على المرضى.
وقال بأن جهادهن يكون في الحج، و تشبيه الحج والعمرة بالجهاد بجامع الأسفار، والبعد عن الأوطان، ومفارقة الأهل، وخطر الأسفار، وتعب البدن، وبذل الأموال.
وأخرج مسلم من حديث أنس «أن أم سليم اتخذت خنجرًا يوم حنين وقالت للنبي -صلى الله عليه وسلم-: اتخذته إن دنا مني أحد من المشركين بقرت بطنه» فهو يدل على جواز القتال وإن كان فيه ما يدل على أنها لا تقاتل إلا مدافعة، وليس فيه أنها تقصد العدو إلى صفه وطلب مبارزته.
575;م المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ انھوں نے جہاد کی فضیلت کے پیش نظر، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے آپ کی معیت میں جہاد کرنے کی اجازت طلب کی، تو آپ نے واضح انداز میں بتا دیا کہ جہاد اور دشمنوں سے جنگ کرنا عورتوں کے حق میں مشروع نہیں ہے، کیونکہ عام طور سے عورتیں نازک اندام اور نرم دل ہوتی ہیں اور ان کے اندر خطروں کو جھیلنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عورتیں میدان جنگ میں زخمیوں کا علاج، پیاسوں کو پانی پلانا اور اس طرح کے دوسرے کام بھی نہیں کر سکتیں، کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ام عطیہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سات غزوات میں شریک رہی۔ میں ان کے جانے کے بعد قیام گاہ میں رہتی، ان کے لیے کھانا بناتی، زخمیوں کا علاج کرتی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے آگے فرمایا کہ ان کا جہاد حج میں ہوتا ہے۔ حج اور عمرہ کو جہاد سے تشبیہ اس بنا پر دی گئی ہے کہ دونوں میں سفر کرنا پڑتا ہے، وطن سے دور رہنا ہوتا ہے، اہل و عیال سے الگ رہنا پڑتا ہے، سفر کی صعوبتیں جھیلنا پڑتی ہیں، تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے اور مال خرچ کرنا پڑتا ہے۔
امام مسلم رحمہ اللہ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے حنین کے دن ایک خنجر اٹھایا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا کہ میں نے اسے اس لیے اٹھا رکھا ہے کہ اگر کسی مشرک نے میرے پاس آنے کی کوشش کی، تو اس کا پیٹ چیر دوں گی۔ یہ حدیث عورت کے جنگ کرنے کی دلیل ہے، اگرچہ اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ صرف اپنے بچاو کے لیے لڑنا چاہتی تھیں اور ان کا ارادہ دشمن کی صف میں گھس کر دو دو ہاتھ کرنے کا نہیں تھا۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64598

 
 
Hadith   2050   الحديث
الأهمية: ارجع إليهما فاستأذنهما، فإن أذنا لك فجاهد، وإلا فبرهما


Tema:

واپس جاکر دونوں سے اجازت مانگو، اگر دونوں اجازت دے دیں تو جہاد میں شریک ہو سکتے ہو، ورنہ ان کی بات مانو اور ان کى خدمت میں لگے رہو

عن أبي سعيد الخدري أن رجلًا هاجر إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من اليمن فقال: «هل لك أحَدٌ باليمن؟»، قال: أَبَوَاي، قال: «أَذِنَا لك؟» قال: «لا»، قال: «ارْجِعْ إليهما فاستأذِنْهُما، فإنْ أَذِنَا لَكَ فَجَاهِدْ، وإلا فَبِرَّهُمَا».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے ہجرت کرکے آیا، تو آپ نے پوچھا: "کیا یمن میں تمھارا کوئی ہے؟" اس نے جواب دیا: میرے والدین ہیں۔ پوچھا: "دونوں نے تمھیں اجازت دی ہے؟" جواب دیا: نہیں۔ فرمایا: "واپس جاکر دونوں سے اجازت مانگو۔ اگر دونوں اجازت دے دیں، تو جہاد میں شریک ہو سکتے ہو، ورنہ ان کی بات مانو اور ان کى خدمت میں لگے رہو"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد الحديث أن رجلًا جاء من اليمن ليستأذن النبي -صلى الله عليه وسلم- للجهاد، فسأل عن والديه وهل استأذنهما للذهاب للجهاد أم لا، فظهر من حاله أنه لم يستأذنهما، فأمره النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يرجع إليهما ويحسن إليهما ويبرهما، فدل الحديث على أن إذن الوالدين في الجهاد أمر معتبر.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ ایک آدمی یمن سے آیا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شریک ہونے کی اجازت طلب کی، تو آپ نے اس کے والدین کے بارے میں پوچھا اور معلوم کیا کہ آیا اس نے ان سے جہاد میں شریک ہونے کی اجازت لی ہے یا نہیں، تو پتہ چلا کہ اس نے ان سے اجازت نہیں لی ہے۔ لہذا، آپ نے اسے حکم دیا کہ واپس جاکر ان کے ساتھ حسن سلوک کرے, ان کى فرمانبرداری کرے اور ان کی خدمت میں لگا رہے۔ یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد میں والدین کی اجازت کا اعتبار ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64599

 
 
Hadith   2051   الحديث
الأهمية: أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر المشركين


Tema:

میں ہر ایسے مسلمان سے بری ہوں، جو مشرکوں کے بیچ رہتا ہو

عن جرير بن عبد الله قال: بعث رسول الله -صلى الله عليه وسلم- سَرِيَّةً إلى خَثْعَمٍ فاعٍتَصَمَ نَاسٌ منهم بالسجود، فَأَسْرَعَ فيهم القَتْلُ قال: فَبَلَغَ ذلك النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- فَأَمَرَ لهم بنصف العَقْلِ وقال: «أنا بريء من كل مسلم يُقيم بين أَظْهُرِ المشركين». قالوا: يا رسول الله لم؟ قال: «لا تَرَاءَى نَارَاهُما».

جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خثعم قبیلے کی جانب ایک سریہ بھیجا۔ چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ بچاو کے لیے سجدے میں گر پڑے، لیکن انھیں تیزی سے قتل کر دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اس کی اطلاع اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی، تو ان کى آدھی دیت ادا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: "میں ہر ایسے مسلمان سے بری ہوں، جو مشرکوں کے بیچ رہتا ہو"۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ تو فرمایا : "ان میں سے ایک کی آگ دوسرے کو نہيں دکھنی چاہیے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أرسل النبي -صلى الله عليه وسلم- قطعة من الجيش لجماعة من قبيلة خثعم لأنهم كانوا كفاراً، فجعل بعضهم يسجد ليدل على أنه مسلم، إلا إن المسلمين سارعوا إلى قتلهم لظنهم أنهم مشركون، ولبقائهم بين أظهر المشركين، فلما تيقن إسلامهم جعل النبي -عليه الصلاة والسلام- ديتهم على النصف من دية المسلمين، ولم يجعلها كاملة؛ لأنهم كانوا السبب في حصول هذا القتل، وحرم الشرع الإقامة في بلاد الكفار فلا يلتقي المسلم بالكافر ولا تتقابل نارهما، بمعنى لا يكون قريبًا منه بحيث لو أوقد أحدهما نارًا لرآه الآخر، للبراءة من الكفر وأهله.
575;للہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خثعم قبیلے کی ایک حصے کی جانب، جو کافر تھا، لشکر کی ایک ٹکڑی بھیجی۔ یہ لوگ وہاں پہنچے تو کچھ لوگ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ مسلم ہيں، سجدہ کرنے لگے۔ لیکن، چونکہ وہ مشرکوں کے ساتھ رہ رہے تھے، اس لیے مسلمانوں نے انھیں مشرک سمجھ کر بنا وقت گنوائے قتل کر دیا۔ لیکن جب یہ یقین ہو گیا کہ وہ مسلمان ہی تھے، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کى دیت عام مسلمانوں کى دیت سے آدھی رکھى۔ پوری دیت ادا کرنے کے لیے اس لیے نہيں کہا کہ اس قتل کے وقوع کا سبب وہ خود ہی تھے۔ شریعت نے کافروں کے علاقے میں رہنے کو حرام قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مسلمان کافر سے اتنا قریب نہ رہے کہ اگر ان میں ایک آگ جلائے تو دوسرے کو دکھنے لگے۔ اس طرح کا حکم کفر اور اس کے پیروکاروں سے براءت کے اظہار کی بنا پر دیا گیا ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64600

 
 
Hadith   2052   الحديث
الأهمية: لا تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار


Tema:

ہجرت کا سلسلہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا، جب تک کافروں سے جنگ لڑی جاتی رہے گی

عن عبد الله بن وقدان السعدي قال: وَفَدْتُ إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في وفد كُلُّنَا يَطلبُ حَاجة، وكنتُ آخرهم دُخُولاً على رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فقلتُ: يا رسول الله، إني تَركتُ من خلفي وهم يَزْعُمُون أنَّ الهجرة قد انقطعت، قال: «لا تنقطع الهجرة ما قُوتِلَ الكُفَّارُ».

عبد اللہ بن وقدان سعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک وفد کے ساتھ آیا۔ ہم میں سے ہر شخص آپ سے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔ میں سب سے آخر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول! میں اپنے پیچھے ایسے لوگوں کو چھوڑ آیا ہوں، جو سمجھتے ہیں کہ ہجرت کا سلسلہ اب بند ہو چکا ہے۔ آپ نے جواب دیا: "ہجرت کا سلسلہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا، جب تک کافروں سے جنگ لڑی جاتی رہے گی"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء هذا الصحابي الكريم في جماعة من قومه يطلبون حاجات، وكان هو آخر من دخل على رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فكان من أسئلته أن قومًا خلفه يقولون إن الهجرة قد انقطعت، فأخبره -عليه الصلاة والسلام- بأن الهجرة من دار الكفر إلى دار الإسلام لا تنقطع ولا تتوقف ما دام المسلمون يقاتلون الكفار، ولكن الهجرة من مكة إلى المدينة انقطعت؛ لحديث (لا هجرة بعد الفتح) متفق عليه.
605;عزز صحابی عبد اللہ بن وقدان سعدی رضی اللہ عنہ اپنے یہاں کے کچھ لوگوں کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے۔ ان میں سے ہر شخص آپ سے کچھ نہ کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔ وہ آپ کے سامنے سب سے آخر میں حاضر ہوئے اور انھوں نے جو سوال پوچھے، ان میں سے ایک یہ تھا کہ ان کے پیچھے رہ جانے والے لوگوں میں سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ اب ہجرت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ اس کا جواب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ دیا کہ دارالکفر سے دارالاسلام کی جانب ہجرت کا سلسلہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا، جب تک مسلمانوں اور کافروں کے بیچ جنگ جاری رہے گی۔ یہ اور بات ہے کہ مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت بند ہو چکی ہے، کیونکہ ایک دوسری حدیث میں ہے : "لا هجرة بعد الفتح" یعنی فتح مکہ کے بعد مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت نہیں رہی (متفق علیہ)۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64601

 
 
Hadith   2053   الحديث
الأهمية: قول علي بن أبي طالب -رضي الله عنه-: أنا أول من يجثو بين يدي الرحمن للخصومة يوم القيامة


Tema:

علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کا قول کہ میں پہلا آدمی ہوں گا، جو قیامت کے دن رحمن کے سامنے جھگڑنے کے لیے گھٹنوں پر بیٹھے گا

عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- أنه قال: «أنا أَوَّلُ من يَجْثُو بين يَدَيِ الرحمن للخُصُومة يوم القيامة» وقال قيس بن عباد: وفيهم أُنْزِلَتْ : {هذان خصمان اخْتَصَمُوا في ربهم} [الحج: 19] قال: "هم الذين تَبَارَزُوا يوم بَدْرٍ: حمزة، وعلي، وَعُبَيْدَةُ، أو أبو عبيدة بن الحارث، وَشَيْبَةُ بن رَبِيعَةَ، وعتبة بن رَبِيعَةَ، والوليد بن عُتْبَةُ".

علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: "میں پہلا آدمی ہوں گا، جو قیامت کے دن رحمن کے سامنے جھگڑنے کے لیے گھٹنوں پر بیٹھے گا"۔ قیس بن عباد کہتے ہیں: انہی لوگوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی : {هذان خصمان اخْتَصَمُوا في ربهم} [الحج: 19] (یہ دو فریق ہیں، جو اپنے رب کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں)۔ وہ کہتے ہیں: یہی لوگہیں جو بدر کے دن جنگ سے پہلے مقابلہ آرائی کے لیے سامنے آئے تھے۔ یعنی حمزہ، علی، عبیدہ یا ابو عبیدہ بن حارث، شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد هذا الأثر عن علي -رضي الله عنه- أنه أخبر عن نفسه بأنه أول من يجلس على ركبتيه يوم القيامة للخصومة بين يدي رب العالمين، وأن هذه الآية (هذان خصمان اختصموا في ربهم) نزلت فيه وفي حمزة وأبي عبيدة -رضي الله عنهم-، لما بارزوا رؤوس الكفر يوم غزوة بدر وهم شيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة والوليد بن عتبة، فدل ذلك على جواز المبارزة والمبارزة -المقاتلة بالسيوف بين اثنين قبل المعركة- قبل بدء المعركة.
575;س اثر سے یہ معلوم ہوا کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ پہلے شخص ہوں گے، جو قیامت کے دن اللہ رب العالمین کے سامنے جھگڑنے کے لیے گھٹنوں پر بیٹھیں گے۔ ساتھ ہی یہ کہ آیت کریمہ {هذان خصمان اختصموا في ربهم} ان کے نیز حمزہ اور ابو عبیدہ رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب وہ غزوۂ بدر کے موقعے پر کفر کے سرغنوں یعنی شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ سے مقابلے کے لیے سامنے آئے تھے۔ یہ اثر مبارزت یعنی معرکہ شروع ہونے سے پہلے دو لوگوں کے بیچ تلوار کی جنگ کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64607

 
 
Hadith   2054   الحديث
الأهمية: أصبنا طعامًا يوم خيبر، فكان الرجل يجيء فيأخذ منه مقدار ما يكفيه، ثم ينصرف


Tema:

ہمیں خیبر کے دن کھانے کی کچھ چیزیں حاصل ہوئیں، تو لوگ آتے اور اس میں سے اتنا لے کر چلے جاتے، جو ان کے لیے کافی ہو

عن عبد الله بن أبي أوفى قال: قلت: "هل كنتم تُخَمِّسُون -يعني الطعام- في عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ فقال: «أصبنا طعامًا يوم خَيبر، فكان الرجلُ يَجيء فَيَأخذُ مِنه مِقدارَ ما يَكفيه، ثم يَنْصَرِف».

عبد اللہ بن ابو اوفی سے روایت ہے کہ ان سے (محمد بن ابو مجالد کے ذریعے) پوچھا گیا : کیا آپ لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھانے کی چیزوں کا پانچواں حصہ نکالتے تھے؟ تو انھوں نے جواب دیا : ہمیں خیبر کے دن کھانے کی چیزیں حاصل ہوئیں، تو لوگ آتے اور اس میں سے اتنا لے کر چلے جاتے، جو ان کے لیے کافی ہو"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دل الحديث على أن المجاهد إذا احتاج إلى الأكل مما جمع من طعام الغنائم فله ذلك, دون أن يدّخِره, بل يأكل منه حاجته دون زيادة ثم ينصرف, أما ادخاره فهذا غلول, لكن الأكل منه بقدر الحاجة ليس بغلول, وإنما نُهي عن الأخذ من الغنيمة بحيث ينفرد به عن إخوانه المجاهدين, أما ما يشاركه فيه غيره من الطعام والفاكهة فلا حرج فيه.
740;ہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر مجاہد کو کھانے کی ضرورت ہو، تو وہ مال غنیمت میں حاصل شدہ کھانے کی چیزوں میں سے بقدر ضرورت کھا سکتا ہے، لیکن ذخیرہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ مال غنیمت کے اندر خیانت میں شمار ہوگا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ غنیمت کا مال تقسیم سے پہلے لینے سے اس وقت منع کیا گیا ہے، جب دوسرے مجاہد بھائیوں کا حق مار کر لے لیا جائے، لیکن اگر کھانا اور پھل وغیرہ سب لوگ بقدر ضرورت استعمال کے لیے لیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64622

 
 
Hadith   2055   الحديث
الأهمية: يد المسلمين على من سواهم، تتكافأ دماؤهم وأموالهم، ويجير على المسلمين أدناهم، ويرد على المسلمين أقصاهم


Tema:

مسلمان دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی طرح ہیں، ان کا خون اور ان کا مال برابر ہے، ان کے کسی ادنی انسان کی دی ہوئی امان بھی اس لائق ہوتی ہے کہ سارے مسلمان اس کا احترام کریں اور مسلمانوں کى اور مال غنیمت ان میں کا سب سےدور شخص بھى لوٹاتا ہے

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «يَدُ المسلمين على مَن سِواهم، تَتَكافَأُ دِماؤهم وأموالُهم، ويُجِيرُ على المسلمين أدْناهم، ويَرُدُّ على المسلمين أَقْصَاهم».

عمرو بن شعیب اپنے والد سے, وہ اپنے دادا سے روایت نقل کرتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "مسلمان دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی طرح ہیں، ان کا خون اور ان کا مال برابر ہے، ان کے کسی ادنی انسان کی دی ہوئی امان بھی اس لائق ہوتی ہے کہ سارے مسلمان اس کا احترام کریں اور مسلمانوں کى اور مال غنیمت ان میں کا سب سےدور شخص بھى لوٹاتا ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دل الحديث على أن كلمة المسلمين يجب أن تكون واحدة، وأمرهم ضد أعدائهم واحد، فلا يتفرقون ولا يتخاذلون، وإنما هم عصبة واحدة، وأمرهم واحد على الأعداء؛ قال -تعالى-: (وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا)، وقال -تعالى-: (لَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ). كما أنَّ دماء المؤمنين والمسلمين تتساوى في الدية والقصاص، فليس أحد أفضل من أحد، لا في الأنساب، ولا في الأعراق، ولا في المذاهب، فهم أمام هذا الحق والواجب سواء، وفيه أيضا أنَّ المسلم الواحد إذا أمَّن كافرًا صار أمانه ساريًا على عموم المسلمين، فيجب احترام أمانه، ولا يحل هتك عهده وعقده.
وفي الحديث أيضا أن السرية إذا غنمت بقوة الجيش كانت الغنيمة لهم وللقاصي من الجيش, إذ بقوته غنموها, وأن ما صار في بيت المال من الفيء فهو لقاصيهم ودانيهم، وإن كان سبب أخذه دانيهم.
740;ہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مسلمانوں کے اندر مکمل اتحاد و اتفاق رہنا چاہیے اور دشمن کے مقابلے میں انھیں ایک جان کی طرح کھڑا ہونا چاہیے۔ ان کے اندر انتشار اور آپسی پھوٹ کی بجائے اس قدر ہم آہنگی اور آپسی محبت ہو کہ وہ سچ مچ ایک ہی جماعت کی طرح دکھیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا : {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا} (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہ بندیوں کا شکار نہ بنو) ایک اور جگہ فرمایا : {لَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ} (آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تم کمزور ہو جاو گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی)۔ اسی طرح تمام مسلمانوں کا خون دیت اور قصاص کے معاملے میں بھی برابر ہے۔ کوئی کسی سے افضل نہیں ہے۔ نہ نسب کی بنیاد پر، نہ رنگ و نسل کی بنیاد پر اور نہ مسلک کی بنیاد پر۔ سارے لوگ اس حق اور واجب کے سامنے برابر ہیں۔ اس حدیث میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ کسی ایک مسلمان نے بھی جب کسی کافر کو امان دے دی، تو اس کی دی ہوئی امان سارے مسلمانوں کے لیے واجب التسلیم ہو گى، اس لیے اس کا احترام ضروری ہے اور اس کے عہد کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے۔
ساتھ ہی اس بات کا بھی ذکر ہے کہ کسی سریے کو لشکر کی قوت کی بنا پر جو مال غنیمت حاصل ہو، وہ اس سریے میں شامل لوگوں کو بھی ملے گا اور فوج کے ان لوگوں کو بھی جو وہاں سے دور موجود ہوں، کیوں کہ یہ مال غنیمت فوج کی طاقت کی بنا پر حاصل ہوا ہے اور بیت المال میں جو فے کا مال آئے وہ یکساں طور پر قریب کے فوجیوں کے لیے بھی ہے اور دور کے فوجیوں کے لیے بھی، اگر چہ اسے حاصل کرنے میں قریب کے فوجیوں کی ہی تگ ودو شامل ہو۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64624

 
 
Hadith   2056   الحديث
الأهمية: لأخرجن اليهود، والنصارى من جزيرة العرب حتى لا أدع إلا مسلمًا


Tema:

میں ضرور یہودیوں اور نصرانیوں کو جزیرۂ عرب سے نکال دوں گا، یہاں تک کہ مسلمان کے سوا کسی کو نہيں چھوڑوں گا

عن عمر بن الخطاب أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «لأُخْرِجَنَّ اليهودَ والنصارى مِن جَزِيرة العرب حتى لا أدَعَ إلا مُسلما».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: "میں ضرور یہودیوں اور نصرانیوں کو جزیرۂ عرب سے نکال دوں گا، یہاں تک کہ مسلمان کے سوا کسی کو نہيں چھوڑوں گا"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر عمر -رضي الله عنه- عن عزم النبي -صلى الله عليه وسلم- على إخراج اليهود والنصارى من جزيرة العرب, لئلا يجتمع فيها دينان, ولتبقى الجزيرة عامرة بالتوحيد, ليس فيها مَعْلَمٌ من معالم الشرك, لأنّ مجاورةَ الكفار، ومعاشرتهم شرٌّ، وتجر إلى شرور كبيرة، من خشية التشبه بهم، واستحسان عقائدهم، والرغبة في تقليدهم، من بسطاء المسلمين، وقليلي الإدراك منهم, فيجب تميز المسلمين، واستقلالهم في بلادهم، وبُعدهم عن مخالطة غيرهم، ممن يخالفهم في العقيدة، لذا يجب إخراج اليهود والنصارى والمجوس وسائر أصحاب الملل من الكفار من جزيرة العرب, فجزيرة العرب خاصة بهم، والعرب هم أصحاب الرسالة المحمَّدية، وبلادهم هي مهبط الوحي، فلا يصح بحال من الأحوال أن يقيم فيها غير المسلمين.
593;مر بن خطاب رضی اللہ عنہ بتا رہے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں اور نصرانیوں کو جزیرۂ عرب سے نکال باہر کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا، تاکہ اس کے اندر ایک سے زیادہ دین کا وجود نہ رہے، پورا جزیرۂ عرب توحید سے آباد رہے اور اس میں شرک کی کوئی نشانی باقی نہ رہے۔ دراصل کافروں کے پڑوس میں اور ان کے ساتھ رہنا بری چيز ہے اور یہ بہت سی برائیوں کا سبب بنتا ہے۔ اس سے اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ کہیں سیدھے سادے اور کم علم و فہم والے مسلمان ان کی مشابہت اختیار کرنے نہ لگیں، ان کے عقائد کو بہتر سمجھنے نہ لگیں اور ان کی تقلید کرنے کی جانب راغب نہ ہو جائیں۔ اس لیے مسلمانوں کا الگ رہنا، اپنے ملک اور شہر میں بود و باش اختیار کرنا اور الگ عقیدے کے حامل لوگوں کے بیچ رہنے سے بچنا ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی، نصرانی اور مجوسی وغیرہ تمام کافر ملتوں کو جزیرۂ عرب سے نکالنا ضروری ہے، کیونکہ جزیرۂ عرب، جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اترا کرتی تھی، مسلمانوں کے لیے خاص ہے اور کسی بھی صورت میں اس کے اندر کسی غیر مسلم کا رہنا صحیح نہیں ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64625

 
 
Hadith   2057   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- بعث خالد بن الوليد إلى أكيدر دومة فأخذ فأتوه به، فحقن له دمه وصالحه على الجزية


Tema:

نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خالد بن ولید کو دومۃ الجندل کے حکمراں اکیدر کی جانب بھیجا۔ وہ ان کو گرفتار کر کے آپ کے پاس لائے تو آپ نے اس کے خون کو تحفظ فراہم کیا اور اس سے جزیہ پر مصالحت کر لی

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- وعن عثمان بن أبي سليمان -رضي الله عنه- «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- بعث خالد بن الوليد إلى  أُكَيْدِرِ دُومَةَ؛ فأُخِذ فأتوه به، فَحَقَنَ له دَمَهُ وصَالَحَه على الجِزْيَة».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور عثمان بن ابو سلیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو دومۃ الجندل کے حکمراں اکیدر کی جانب بھیجا۔ وہ ان کو گرفتار کر کے آپ کے پاس لائے تو آپ نے اس کے خون کو تحفظ فراہم کیا اور اس سے جزیہ پر مصالحت کر لی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بعث النَّبي -صلى الله عليه وسلم- خالد بن الوليد من تبوك في سرية لما كان هناك في أيام الغزوة إلى أكيدر، فأسره وفتح حصنه، وعاد به إلى المدينة، فردَّه النَّبي -صلى الله عليه وسلم- إلى بلاده، وضرب عليه الجزية، مع كونه من العرب، ولم يكرهه على الإسلام.
606;بی صلی اللہ علیہ و سلم نے تبوک سے, وہاں غزوہ کے دونوں میں اپنى موجودگى کے دوران, خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو ایک سریہ کے ساتھ اکیدر کی جانب بھیجا۔ تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اسے گرفتار کر لیا اور اس کے قلعے کو فتح کر لیا نیز اسے لے کر مدینہ پہنچے، لیکن رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا، بلکہ اس پر جزیہ نافذ کرکے اسے اس کے وطن واپس کر دیا، حالانکہ وہ اہل عرب میں سے تھا۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64631

 
 
Hadith   2058   الحديث
الأهمية: قول معاذ بن جبل: بعثني النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى اليمن، فأمرني أن آخذ من كل ثلاثين بقرة تبيعا أو تبيعة، ومن كل أربعين مسنة، ومن كل حالم دينارًا، أو عدله معافر


Tema:

معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا قول: نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ ہر تیس گائے میں ایک سال کا ايك بچھڑا یا ایک سال کی ايك بچھیا اور ہر چالیس گائے میں دو سال کی ايك بچھیا اور ہر بالغ کی جانب سے ایک دینار یا اس کی قیمت کے برابر معافری کپڑا لے لیا کروں

عن معاذ بن جبل -رضي الله عنه- قال: «بعثني النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى اليمن، فأمرني أن آخذ من كل ثلاثين بقرة تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، ومن كل أربعين مُسنة، ومن كل حَالِم دينارًا، أو عَدْلَهُ مَعَافِرَ».

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ ہر تیس گائے میں ایک سال کا ايك بچھڑا یا ایک سال کی ايك بچھیا اور ہر چالیس گائے میں دو سال کی ايك بچھیا اور ہر بالغ کی جانب سے ایک دینار یا اس کی قیمت کے برابر معافری کپڑا لے لیا کروں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
عن معاذ أن النبي -صلى الله عليه وسلم- لما أرسله أميرًا إلى اليمن وعاملًا على الزكاة وغيرها، أمره أن يأخذ زكاة البقر من كل ثلاثين بقرة تبيعًا أو تبيعةً، وهو ما له سنة، ومن كل أربعين مسنةً يعني أو مُسِنًّا، وهو ما له سنتان.
وقدر الجزية بالدينار من الذهب على كل بالغ وظاهر إطلاقه سواء كان غنيًّا أو فقيرًا، والمراد أنه يؤخذ الدينار منهم في السنة.
لكن الجزية يرجع في تقديرها إلى اجتهاد الإمام، فإنَّها تختلف حسب اختلاف المكان والزمان، والغنى والفقر، والدليل على ذلك أنَّ النَّبيَّ -صلى الله عليه وسلم- هو الذي قدرها على أهل اليمن، فقال لمعاذ: "خذ من كل حالم دينارًا"، بينما زادت الجزية في تقدير عمر حينما قدرها على أهل الشام.
605;عاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہرسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان کو امیر اور زکوۃ کے عامل کی حیثیت سے یمن بھیجا، تو حکم دیا کہ گائے کی زکوۃ میں ہر تیس گایوں پر ایک سال کا ايك بچھڑا یا ایک سال کی ايك بچھیا اور ہر چالیس گائے میں دو سال کی ايك بچھیا لیا جائے- اور آپ كا مقصود تھا کہ دو سال کا بچھڑا بھى لیا جاسکتا ہے۔
اسی طرح جزیہ کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر بالغ شخص کی جانب سے سونے کا ایک دینار لیا جائے۔ اس کے اطلاق کے ظاہر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک دینار امیر اور غریب سب کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے سال میں ایک دینار لیا جائے گا۔
لیکن اس بات کا دھیان رہے کہ جزیہ کی تعیین کا معاملہ حاکم وقت کے اجتہاد پر موقوف ہے، کیونکہ وہ زمان و مکان اور امیری و غریبی کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کا جزیہ متعین کرتے ہوئے معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہر بالغ شخص سے ایک دینار لو، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے اہل شام پر جزیہ نافذ کیا، تو کچھ بڑھاکر لاگو کیا۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64632

 
 
Hadith   2059   الحديث
الأهمية: الإسلام يعلو ولا يعلى


Tema:

اسلام سر بلند رہتا ہے اور مغلوب نہیں ہوتا

عن عائذ بن عمرو المزني -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «الإسلام يَعْلُو ولا يُعْلَى».

عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اسلام سر بلند رہتا ہے اور مغلوب نہیں ہوتا"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث قاعدة عظيمة من قواعد الإسلام، وهي أن هذا الدين قد كتب الله له الرفعة والعلو، وأن أهله لا يزالون في علو ومكانة حسنة ما داموا متمسكين به، فهذا شرط ذلك، وهو خبر بمعنى الأمر، كما قال -تعالى-: (ولا تهنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين)، والحديث عام في جميع الأحوال، ويستدل به الفقهاء في فروع ومسائل كثيرة، ومنها باب الجزية، فإن أهل الذمة إذا دفعوا الجزية وكانوا بين أظهرنا فإنهم لا يُمكنون من إظهار نواقيسهم وصلبانهم ولا تعلو بنيانهم بنيان المسلمين، وإذا أسلم أحد الزوجين تبع الولد خير أبويه دينًا وهو من كان مسلمًا، ولا تزوج المسلمة للكافر، وهكذا كل حكم ترتب عليه علو شأن الإسلام فهو المقدم.
575;س حدیث میں اسلام کا ایک عظیم ترین قاعدہ بتایا گيا ہے۔ وہ قاعدہ یہ ہے کہ اللہ نے اسلام کے لیے رفعت و سربلندی لکھ دی ہے اور اس کے ماننے والے اس وقت تک سربلند اور اچھی حالت میں رہیں گے، جب تک اسلام کو مضبوطی سے تھامے رہیں گے۔ اس طرح، سربلندی کے لیے اسلام کو مضبوطی سے تھامے رکھنا شرط ہے۔ حدیث کا یہ جملہ اگر چہ خبریہ ہے، لیکن ہے امر کے معنی میں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {ولا تهنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين} (تم نہ کمزور پڑو اور نہ غمگين ہو۔ تم ہی غالب رہوگے اگر ایمان دار ہو)۔ یہ حدیث تمام احوال کے لیے عام ہے اور فقہا نے اس سے بہت سے مسائل اور فروعات میں استدلال کیا ہے۔ اس کی ایک مثال جزیہ کا باب ہے، کیونکہ ذمی جب جزیہ ادا کرکے ہمارے بیچ رہیں گے، تو انھیں کھلم کھلا ناقوس بجانے اور صلیب قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ان کى عمارتیں مسلمانوں کى عمارتوں سے اونچى بنائی جائیں گى۔ اس کی دوسری مثال یہ ہے کہ اگر غیر مسلم والدین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے، تو بچہ دونوں میں سے جو بہتر دین کا حامل ہو یعنی مسلمان کے تابع ہوگا۔ اسی طرح کسی مسلمان عورت کا نکاح کافر سے نہيں ہو سکتا۔ علی ہذا القیاس، ہر وہ حکم جس سے اسلام کی سر بلندی جھلکتی ہو، وہی مقدم ہوگا۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64633

 
 
Hadith   2060   الحديث
الأهمية: من قتل معاهدًا لم يَرَحْ رائحة الجنة، وإن ريحها توجد من مسيرة أربعين عامًا


Tema:

جس نے کسی معاہد کو قتل کیا، وہ جنت کی بو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی بو چالیس سال کی مسافت کے برابر دوری سے محسوس کی جاتی ہے

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «من قَتَلَ مُعَاهَدًا لم يَرَحْ رَائحَةَ الجنة، وإن رِيْحَهَا تُوجَدُ من مَسِيرَة أربعين عامًا».

عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "جس نے کسی معاہد کو قتل کیا، وہ جنت کی بو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی بو چالیس سال کی مسافت کے برابر کی دوری سے محسوس کی جاتی ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد الحديث أن من قتل معاهدًا بغير حق، والمعاهد هو من دخل أرض الإسلام بعهد وأمان، أو كان من أهل الذمة، من الكفار، لم يمكنه الله من دخول الجنة، وإن ريحها ليوجد من مسيرة أربعين سنة، وهذا دلالة على بعده عنها، وهو يفيد حرص الإسلام على الحفاظ على الدماء المعصومة من المعاهدين والذميين، وأن قتلهم بغير حق من كبائر الذنوب.
575;س حدیث سے معلوم ہوا کہ جس نے کسی معاہد یعنی اسلامی سرزمین میں کسی عہد و امان کے ساتھ داخل ہونے والے شخص یا کسی ذمی کافر کا ناحق قتل کر دیا، وہ جنت کی بو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی بو چالیس سال کی مسافت کے برابر کی دوری سے محسوس کی جاتی ہے۔ یہ حدیث اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ اس طرح کا آدمی جنت سے کتنا دور ہوگا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام معاہدین اور ذمیوں کے خون کے تحفظ کا کس قدر حریص ہے اور ساتھ ہی یہ کہ ان کا ناحق قتل کبیرہ گناہ ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64637

 
 
Hadith   2061   الحديث
الأهمية: لا سَبَق إلا في خف أو في حافر أو نصل


Tema:

انعام کے ساتھ مسابقہ صرف اونٹ دوڑ یا گھوڑ دوڑ یا تیر اندازی میں جائز ہے

عن أبي هريرة قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا سَبَقَ إلا في خُفٍّ أو في حَافِرٍ أو نَصْلٍ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "انعام کے ساتھ مسابقہ صرف اونٹ دوڑ یا گھوڑ دوڑ یا تیر اندازی میں جائز ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد الحديث أن الجعل وهو العوض من مال ونحو ذلك لا يُستحقّ إلا في سباق الخيل والإبل وما في معناهما، وفي النصل، وهو الرمي، وذلك لأن هذه الامور عُدّة في قتال العدوّ، وفي بذل الْجُعْل عليها ترغيبٌ في الجهاد، وتحريض عليه، ويدخل في معنى الخيل البغال والحمير؛ لأنها كلها ذوات حوافر، وقد يُحتاج إلى سُرعة سيرها؛ لأنها تحمل أثقال العساكر، وتكون معها في المغازي، ويدخل في الحديث كل ما في معنى ما ذُكر من آلات حربية ونحو ذلك.
575;س حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی یا کسی اور طرح کا انعام لینا صرف اونٹ دوڑ،گھوڑ دوڑ اور ان کے معنی میں آنے والے مقابلوں اور تیر اندازی میں ہی صحیح ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں مقابلے دشمن سے جنگ کی تیاری میں شامل ہیں اور ان کے لیے انعام رکھنے سے جہاد کی ترغیب ملتی ہے۔ واضح رہے کہ گھوڑے کے معنی میں خچر اور گدھے بھی شامل ہيں، کیونکہ یہ بھی کھر والے ہیں اور کبھی کبھی ان کی تیز چال کی بھی ضرورت رہتی ہے، کیونکہ یہ لشکر کے بوجھ اٹھاتے ہیں اور جنگی اسفار میں فوج کے ساتھ رہتے ہیں۔ اس حدیث کے تحت وہ سارے جنگی آلات بھی داخل ہوں گے، جو مذکورہ چیزوں کے معنی میں شامل ہوں۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64640

 
 
Hadith   2062   الحديث
الأهمية: ألا إن القوة الرمي، ألا إن القوة الرمي، ألا إن القوة الرمي


Tema:

سن لو! قوت تیر اندازی ہے۔ سن لو! قوت تیر اندازی ہے۔ سن لو! قوت تیر اندازی ہے

عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وهو على المنبر، يقول: "{وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة} [الأنفال: 60]، ألا إن القُوَّةَ الرَّميُ، ألا إن القوة الرمي، ألا إن القوة الرمي".

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر کھڑے ہوکر کہتے ہوئے سنا ہے:" {وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة} [سورہ الأنفال: 60] (تم ان کے مقابلے میں طاقت بھر قوت کی تیاری کرو), سن لو! قوت تیر اندازی ہے۔ سن لو! قوت تیر اندازی ہے۔ سن لو! قوت تیر اندازی ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد الحديث تفسير النبي -صلى الله عليه وسلم- للقوة المأمور باتخاذها في مجابهة الأعداء والكفرة، وهي الرمي؛ لأنه أنكى، وأبعد عن خطر العدو، وكان الرمي وقت نزول الآية الكريمة بالسهام، ولكن الآية بإعجازها أطلقت القوة؛ لتكون قوة كل زمان ومكان، وكذلك الحديث الشريف جاء إعجازه العلمي بإطلاق الرمي، الذي يشتمل الرمي بأنواعه، وأن يفسر بكل رمي يتجدد وبأي سلاح يحدث.
575;س حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قوت کی تفسیر بیان کی ہے، جسے دشمنوں اور کافروں کے مقابلے کی خاطر تیار رکھنے کا حکم دیا گيا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس قوت سے مراد تیر اندازی ہے، کیونکہ یہ دشمن پر زیادہ کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ اس کے خطرے سے کہیں زیادہ محفوظ بھی رکھتی ہے۔ حدیث میں "الرمي" یعنی پھینکنے اور چلانے کا لفظ آیا ہے اور جس وقت یہ آیت اتری تھی، اس وقت میدان جنگ میں تیر چلائے جاتے تھے۔ لیکن اس آیت کا اعجاز دیکھیے کہ اس میں مطلق قوت کا لفظ آيا ہے، تاکہ زمان و مکان کی قیود سے ماورا ساری قوتیں اس میں شامل ہو جائیں۔ اسی طرح حدیث کا بھی علمی اعجاز دیکھیے کہ اس میں مطلق "الرمي" یعنی پھینکنے اور چلانے کا لفظ آیا ہے، جس میں پھینکنے اور چلانے کی ساری شکلیں شامل ہیں، چاہے وہ نئی سے نئی ہی کیوں نہ ہوں اور جدید سے جدید ہتھیاروں کے ذریعے ہی کیوں نہ ہوں۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64642

 
 
Hadith   2063   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى عن كل ذي ناب من السباع، وعن كل ذي مخلب من الطير


Tema:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نےکچلی کے دانت والے ہر درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے ہر پرندے کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نَهَى عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِن السِّبَاع، وعَن كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِن الطَّيْرِ».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے کچلی کے دانت والے ہر درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے ہر پرندے کا گوشت کھانے سے منع کیا ہے۔

الأصل في الأطعمة واللحوم الحل والإباحة, إلا ما استثناه الشرع بدليل خاص, وهذا الحديث يبين بعض الأصناف التي نهى الشرع عن تناولها من اللحوم, وهي كل ذي نابٍ من السِّباع، وكل ذي مخلبٍ من الطير، فكل ذي نابٍ من السِّباع محرَّم، وذو الناب من السباع: هو الحيوان المفترس الذي جمع الوصفين الافتراس بالنَّاب والسبعيَّة الطبيعِيَّة، كالأسد والنمر والذئب، فإذا تخلَّفت إحدى الصفتين لم يحرم, وكذلك الحكم في كل ذي مخلب يصيد به من الطيور كالعقاب والباز والصقر ونحو ذلك فهو محرَّم الأكل.

705;ھانے پینے کی چیزوں اور گوشت وغیرہ میں اصل حلال اور مباح ہونا ہے، سوائے اس کے جس کا شریعت نے کسی خاص دلیل کی بنا پر استثنا کر دیا ہو۔ اس حدیث میں گوشت کی بعض ایسی اصناف کا ذکر ہے جنھیں شریعت نے کھانے سے منع کیا ہے۔ یعنی کچلی کے دانت والے ہر درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے ہر پرندے کا گوشت۔ لہذا، کچلی کے دانت والا ہر درندہ حرام ہے۔ واضح ہو کہ اس سے مراد ایسا چیر پھاڑ کرنے والا درندہ ہے، جس کے اندر اس میں مذکور دو اوصاف، یعنی کچلی کے دانت سے چیر پھاڑ کرنے اور فطری درندگی کی صفتیں پائی جائیں، جیسے شیر، چیتا اور بھیڑیا وغیرہ۔ اگر ان دونوں اوصاف میں سے ایک وصف بھی معدوم ہو، تو وہ جانور حرام نہیں ہوگا۔ اسی طرح پنجے سے شکار کرنے والے سارے پرندے جیسے عقاب، باز اور گدھ وغیرہ حرام ہیں۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64643

 
 
Hadith   2064   الحديث
الأهمية: الضبع صيد هي؟ قال جابر: «نعم»


Tema:

کیا لکڑ بگھا شکار ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں۔

عن ابن أبي عَمَّار قال: قلت لجابر: الضَّبْع صَيْدٌ هي؟ قال: «نعم»، قال: قلتُ: آكُلُها؟ قال: «نعم»، قال: قلتُ له: أَقَالَهُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قال: «نعم».

ابن ابو عمار سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا لکڑ بگھا شکار ہے؟ انھوں نے جواب دیا: ہاں! وہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا میں اسے کھاوں؟ جواب دیا: ہاں! وہ کہتے ہیں میں نے پوچھا: کیا یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کہی ہے؟ جواب دیا: ہاں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل التابعي ابن أبي عمار -رحمه الله- جابرَ بن عبد الله -رضي الله عنهما- عن حكم الضبع, وهل يجوز صيدها وأكلها؟ فأجابه بأن ذلك جائز, ثم استفهم ابن أبي عمار من جابر عن هذه الفتوى هل هو شيء قاله برأيه, أو سمعه من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ فأخبره بأنه سمع ذلك من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ابن ابو عمار نامی تابعی نے جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے لکڑ بگھا کے بارے میں پوچھا کہ کیا اس کا شکار کرنا اور اسے کھانا جائز ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں جائز ہے۔ ابن ابو عمار نے جابر رضی اللہ عنہ سے پھر پوچھا کہ کیا یہ فتوی انھوں نے اپنی رائے سے دیا ہے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ تو بتایا کہ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64646

 
 
Hadith   2065   الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الجلالة في الإبل: أن يركب عليها، أو يشرب من ألبانها


Tema:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جلالہ یعنی گندگی کھانے والے اونٹ پر سوار ہونے اور اس کا دودھ پینے سے منع کیا ہے

عن ابن عمر -رضي الله عنهما-، قال: "نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الجَلَّالَة في الإبِل: أنْ يُرْكَبَ عليها، أو يُشْرَب مِن أَلْبَانِها".

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جلالہ یعنی گندگی کھانے والے اونٹ پر سوار ہونے اور اس کا دودھ پینے سے منع کیا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد الحديث النَّهي عن ركوب الجلاَّلة من الإبل، والنهي عن شرب لبنها, -وهو متضمن للنهي عن أكل لحومها كما ورد في الأحاديث الأخرى-, والنهي في الحديث ليس خاصًّا بجنس الإبل بل هو عام في كل ما يتغذى على النجاسات والعذرات من الحيوان والطيور المأكولة -إن كان أكثر علفها من ذلك- ؛ لأنَّ لحمها ولبنها وعرقها صارت متولدات من النجاسة، فهي نجسة, إلا إذا غذيت بعد ذلك بطاهر ثلاثة أيام فأكثر، فيرتفع المنع حينئذ.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جلالہ یعنی گندگی کھانے والے اونٹ پر سوار ہونا اور اس کا دودھ پینا منع ہے۔ ویسے اس میں اس کا گوشت کھانے کی ممانعت بھی شامل ہے، جیسا کہ دوسری حدیثوں سے ثابت ہے۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو ممانعت آئی ہے، وہ صرف اونٹ کے ساتھ خاص نہیں ہے، بلکہ اس کے ضمن میں وہ سارے ماکول اللحم جانور اور پرندے آ جاتے ہیں، جو گندگیاں اور نجاستیں کھاتے ہیں، اگر ان کا زیادہ تر گزارہ اسی سے ہوتا ہو تو، کیونکہ ان کا گوشت، دودھ اور پسینہ چوں کہ نجاست کے نتیجے میں پیدا ہوتا ہے، اس لیے وہ نجس ہوگا۔ ہاں! اگر اس کے بعد لگاتار تین یا اس سے زیادہ دنوں تک پاک چیزیں کھلائی جائیں، تو ممانعت ختم ہو جائے گی۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64648

 
 
Hadith   2066   الحديث
الأهمية: أهدت أم حفيد خالة ابن عباس إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- أقطًا وسمنًا وأضبًّا، فأكل النبي -صلى الله عليه وسلم- من الأقط والسمن، وترك الضب تقذرًا


Tema:

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی خالہ ام حفید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پنیر، گھی اور سانڈے ہدیے کے طور پر بھیجے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم- نے پنیر اور گھی میں سے کھایا اور سانڈہ کو کراہت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔

عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال: «أَهْدَتْ أُمُّ حُفَيْدٍ خَالَةُ ابْنِ عباس إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- أَقِطًا وَسَمْنًا وَأَضُبًّا، فأَكَل النبي -صلى الله عليه وسلم- من الأَقِطِ وَالسَّمْنِ، وَتَرَكَ الضَّبَّ تَقَذُّرًا»، قال ابن عباس: «فَأُكِلَ على مائدة رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولو كان حراما ما أُكِلَ على مائدة رسول الله -صلى الله عليه وسلم-».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان کی خالہ ام حفید نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پنیر، گھی اور سانڈے ہدیے کے طور پر بھیجے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے پنیر اور گھی میں سے کھایا اور سانڈہ کو کراہت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر اسے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھایا گیا۔ اگر وہ حرام ہوتا، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھایا نہ جاتا"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر ابن عباس -رضي الله عنهما- في هذا الحديث أن خالته أم حفيد أهدت إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- طعامًا: أقطًا وسمنًا وأضبًّا, فأكل -صلى الله عليه وسلم- من الأقط والسمن وترك أكل الأضب؛ لأنه مما تعافه نفسه -صلى الله عليه وسلم-, فكراهته له طبعًا، لا دينًا؛ لأنه بيّن سبب تركه، بأنه لم يكن فِي أرض قومه -كما في روايات الحديث الأخرى-، فدلّ عَلَى أنه ما تركه تديّنًا، بل لنفرة طبعه منه, ثم استدل ابن عباس على إباحة أكل الضب بأنه أكل على مائدة النبي -صلى الله عليه وسلم-, ولو كان حرامًا لما أقر غيره على أكله في مائدته.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کر رہے ہیں کہ ان کی خالہ ام حفید نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پنیر، گھی اور سانڈے ہدیہ کیا، تو آپ نے پنیر اور گھی میں سے کھایا اور سانڈے کو چھوڑ دیا؛ کیونکہ آپ کو اس سے گھن محسوس ہوتی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اس سے طبعی طور پر کراہت محسوس کرتے تھے، دینی طور پر نہیں۔ خود آپ نے اسے نہ کھانے کا سبب یہ بیان کیا ہے، جیسا کہ اس حدیث کی دوسری روایتوں میں آیا ہے کہ وہ آپ کی قوم کی سر زمین میں نہیں ہوتا ہے۔ آپ کا یہ سبب بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسے کھانے سے گريز دینی وجہ سے نہیں کیا، بلکہ طبعی تنفر کی وجہ سے کیا۔ پھر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے سانڈہ کے مباح ہونے کی دلیل اس بات سے لی ہے کہ اسے آپ کے دسترخوان پر کھایا گیا، کیونکہ اگر وہ حرام ہوتا، تو آپ اس بات کو گوارہ نہیں کرتے کہ اسے آپ کے دسترخوان پر کھایا جائے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64650

 
 
Hadith   2067   الحديث
الأهمية: إذا رميت بسهمك، فغاب عنك، فأدركته فكله، ما لم ينتن


Tema:

جب تم کسی شکار پر تیر چلاو اور وہ غائب ہو جائے اور پھر بعد میں ملے، تو اسے کھاو، جب تک اس میں بد بو نہ آ جائے

عن أبي ثعلبة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ، فغابَ عنْك، فَأَدْرَكْتَهُ فَكُلْهُ، ما لَمْ يُنْتِنْ».

ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جب تم کسی شکار پر تیر چلاو اور وہ غائب ہو جائے اور پھر بعد میں ملے، تو اسے کھاو، جب تک اس میں بد بو نہ آ جائے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد الحديث أن الصائد إذا رمى الصيد بسهم ونحو ذلك مما هو في حكم السهم, فأصاب الصيد ثم غاب عن عين الصياد، ووجده بعد ذلك, ولم يجد فيه أثرًا قاتلاً إلاَّ سهمه جاز أكله ما لم يصل إلى مرحلة التغير والنتن؛ لأنه يصير حينئذ من الخبائث, ويضر بصحة الإنسان إذا أكله.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں یہ بتایا گیا ہے کہ شکاری نے جب شکار پر تیر یا اس کے حکم میں داخل کوئی اور اوزار چلایا، پھر وہ شکار کو لگ گیا، اس کے بعد شکار شکاری کی نظروں سے اوجھل ہو گیا اور بعد میں ملا، تو ایسے میں اگر وہ شکار کے جسم پر اپنے چلائے ہوئے تیر کے نشان کے علاوہ کسی دوسرے قاتل زخم کا نشان نہ پائے، تو اسے کھا سکتا ہے۔ لیکن یہ جواز اس وقت تک ہے، جب تک اس کے اندر بدلاو اور بد بو نہ آ گئی ہو۔ اگر ایسا ہو جائے تو وہ خبائث یعنی گندی چیزوں میں شمار ہوگا اور انسان کی صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہونے کی وجہ سے اس کو کھانا جائز نہیں ہوگا۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64652

 
 
Hadith   2068   الحديث
الأهمية: أن قومًا قالوا: يا رسول الله إن قومًا يأتوننا باللحم لا ندري أذكروا اسم الله عليه أم لا، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «سموا الله عليه وكلوه»


Tema:

کچھ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اس پر اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اس پر اللہ کا نام لو اور کھاو"

عن عائشة -رضي الله عنها-: أنّ قومًا قالوا: يا رسول الله إنّ قومًا يأتوننا باللحم لا نَدري أَذَكروا اسمَ الله عليه أم لا، فقال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «سَمُّوا الله عليه وكُلُوه».

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ کچھ لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول! کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لاتے ہیں۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وہ اس پر اللہ کا نام لیتے ہیں یا نہیں۔ تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اس پر اللہ کا نام لو اور کھاو"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث تخبر عائشة -رضي الله عنها- أن أُناساً جاءوا إلى النَّبي -صلى الله عليه وسلم- فسألوه عن هذه اللحوم القادمة من قوم مسلمين، إلاَّ أنَّ عهدهم بالكفر قريب، فيغلب عليهم الجهل، فلا يُعلم هل ذكروا اسم الله عليه عند ذبحه أو لا؟ فأمر النَّبي -صلى الله عليه وسلم- السَّائلين أنْ يذكروا اسم الله عند أكلها وأن يأكلوا تلك اللحوم، ويظهر من قوله -صلى الله عليه وسلم- في بعض ألفاظ الحديث: "سَمُّوْا الله أَنْتُمْ وَكُلُوا" أن في هذا نوعاً من اللوم عليهم، كأنه -عليه الصلاة والسلام- يقول: ليس لكم شأن فيما يفعله غيركم، إن كان الظاهر الحل، بل الشأن فيما تفعلونه أنتم، فسمّوا أنتم وكلوا. ومن هذا ما لو قدّم إليك يهودي أو نصراني ذبيحة ذبحها، فلا تسأل أذبحتها على طريقة إسلامية أو لا، لأن هذا السؤال لا وجه له، وهو من التعمّق، وهذا لا يحل الذبائح التي علم وتيقن أنها لم يُذكر عليها اسم الله -تعالى-.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ کچھ لوگ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور پوچھا کہ ان کے پاس گوشت کچھ مسلمانوں کے یہاں سے آتا ہے، لیکن ان کے مسلمان ہونے کو زیادہ دن نہیں ہوئے ہیں، اس لیے ان کے پاس شریعت کے احکام سے واقفیت کی کمی ہوتی ہے، ایسے میں پتہ نہیں ہوتا کہ انھوں نے جانور ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں؟ اس پر آپ نے پوچھنے والوں کو حکم دیا کہ کھاتے وقت اللہ کا نام لے کر اسے کھا لیں۔ حدیث کی کچھ روایتوں میں وارد الفاظ "تم خود اللہ کا نام لے لو اور کھاو" سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس میں ایک طرح سے ان کی ملامت ہے۔ گويا کہ آپ فرما رہے ہیں: اگر ظاہر حلت ہو تو تمھیں دوسرے کے کام کی پروا نہیں کرنی چاہیے، بلکہ اپنے کام پر دھیان رکھنا چاہیے۔ لہذا، تم خود اللہ کا نام لے لو اور کھاو۔ اس سے یہ مستفاد ہوتا ہے کہ اگر کوئی یہودی یا نصرانی اپنا ذبح کیا ہوا ذبیحہ لائے، تو اس سے یہ پوچھا نہیں جائے گا کہ اس نے اسلامی طریقے پر ذبح کیا ہے یا نہیں؟ اسے بال کی کھال نکالنا سمجھا جائے گا۔ لیکن اس سے ایسے ذبیحے حلال نہیں ہوتے، جن کے بارے میں یقینی طور پر معلوم ہو کہ انھیں ذبح کرتے وقت اللہ کا نام نہيں لیا گیا ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64653

 
 
Hadith   2069   الحديث
الأهمية: من فعل هذا لعن الله، من فعل هذا؟ إن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لعن من اتخذ شيئًا فيه الروح غرضًا


Tema:

جس نے یہ کیا اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ یہ کس نے کیا؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذی روح کو نشانہ بناکر تیر اندازی کی مشق کرنے والے پر لعنت کی ہے

عن سعيد بن جبير، قال: مَرَّ ابنُ عمرَ بِفِتيانٍ مِن قريش قد نَصَبُوا طَيْرًا، وهم يَرْمُونَه، وقد جعلوا لصاحِب الطيْرِ كلَّ خاطِئة مِن نَبْلِهم، فلمّا رأَوْا ابنَ عمر تَفَرَّقُوا، فقال ابن عمر: «مَن فعل هذا لَعَنَ الله، مَن فعل هذا؟ إنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لَعَنَ مَن اتخذَ شيئا فيه الرُّوحُ غَرَضًا»

سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قریش کے کچھ نوجوانوں کے پاس سے گزرے، جو ایک پرندے کو نشانے کے طور پر رکھ کے اس پر تیر چلا رہے تھے۔ انھوں نے یہ طے کیا تھا کہ پرندے کے مالک کو نشانے سے چوکنے والے سارے تیر دے دیے جائیں گے۔ لیکن جب عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، تو ادھر ادھر بھاگ گئے۔ اس پر انھوں نے کہا: "جس نے یہ کیا اس پر اللہ کی لعنت ہو۔ یہ کس نے کیا؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذی روح کو نشانہ بناکر تیر اندازی کی مشق کرنے والے پر لعنت کی ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر سعيد بن جُبير أن ابن عمر -رضي الله عنهما- مر بفتيان بقريش وقد وضعوا طائرًا يرمون عليه سهامهم، أيهم أشد إصابة، فلما رأوا عبد الله بن عمر -رضي الله عنه- تفرقوا هربًا منه، ثم قال: ما هذا؟ فأخبروه، فقال: لعن الله من فعل هذا, وذكر أن النبي -صلى الله عليه وسلم- لعن من اتخذ شيئا فيه الروح غرضا.
وهذا لأنه يتألم إذ أن هذا يضربه على جناحه، وهذا يضربه على صدره، وهذا يضربه على ظهره، وهذا على رأسه فيتأذى إذا لم يمت، وهو مقدور على تذكيته، فلهذا لعن النبي -صلى الله عليه وسلم- من اتخذ شيئًا فيه الروح غرضًا.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سعید بن جبیر بتا رہے ہیں کہ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قریش کے کچھ نوجوانوں کے پاس سے گزرے، جو ایک پرندے کو رکھ کر اس پر تیر چلا رہے تھے کہ ان میں سے کون زیادہ درست نشانے والا ہے؟ جب انھوں نے عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا تو خوف سے بھاگ گئے۔ انھوں نے پوچھا: یہ کیا ہے؟ لوگوں نے سب کچھ بتایا تو فرمایا : ایسا کرنے والے پر اللہ کی لعنت ہے۔ پھر بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذی روح کو نشانہ بنا کر تیر اندازی کی مشق کرنے والے پر لعنت کی ہے۔
لعنت کی وجہ یہ ہے کہ اس سے پرندے کو سخت اذیت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیونکہ کوئی اس کے بازو پر تیر چلاتا ہے، کوئی سینے پر چلاتا ہے، کوئی پیٹھ پر چلاتا ہے اور کوئی سر پر چلاتا ہے۔ ایسے میں جب تک مر نہيں جاتا، سخت اذیت میں رہتا ہے۔ حالانکہ اسے ذبح کیا جا سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ذی روح کو نشانہ بنانے والے پر لعنت کی ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64654

 
 
Hadith   2070   الحديث
الأهمية: أن امرأة ذبحت شاة بحجر، فسئل النبي -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك فأمر بأكلها


Tema:

ایک عورت نے پتھر سے ایک بکری کو ذبح کر دیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا

عن كعب بن مالك، أنّ امرأةً ذَبحَت شاةً بِحَجَر، «فسُئل النبيُّ -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك فأمَرَ بِأكلها».

کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے پتھر سے ایک بکری کو ذبح کر دیا۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے بارے میں پوچھا گیا، تو آپ نے اسے کھانے کا حکم دیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث يُخبر كعب بن مالك -رضي الله عنه- أنّ امرأة ذبحت شاة بحجر, وكان سبب ذلك أنها كانت ترعى غنمًا عند أُحُد, فعدى الذئب على واحدة منها, فطردت الذئبَ, وأخذت حصاةً محدَّدة فذكَّتِ الشاة, فسألوا النبي -صلى الله عليه وسلم- عن صنيعها, فأمر -صلى الله عليه وسلم- بأكلها.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں کعب بن مالک رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ ایک عورت نے ایک بکری کو پتھر سے ذبح کر دیا۔ وجہ یہ تھی کہ وہ احد کے پاس بکریاں چرا رہی تھیں۔ اسی بیچ ایک بکری پر بھیڑیے نے حملہ کر دیا، اس نے بھیڑیے کو بھگایا اور ایک دھار دار پتھر لے کر بکری کو ذبح کر دیا۔ لوگوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے اس فعل کو بارے میں پوچھا، تو آپ نے اس بکری کا گوشت کھانے کا حکم دیا۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64655

 
 
Hadith   2071   الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن يقتل شيء من الدواب صبرًا


Tema:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی جانور کو باندھ کر کسى چیز سے مار مار کر قتل کرنے سے منع کیا ہے

عن جابر بن عبد الله قال: «نَهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنْ يُقتل شيء مِن الدَّواب صَبْرا».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: "اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے کسی جانور کو باندھ کر کسى چیز سے مار مار کر قتل کرنے سے منع کیا ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الحديث ينهى عن صبر الدواب، وكل ذي روحٍ، وذلك بأنْ يُحبس ويُقتل، ومن ذلك إتلافه بقتلة غير شرعية، كأنْ يجعل هدفًا للرمي، ففي ذلك تعذيبٌ للحيوان، وإتلافٌ لنفسه، وإضاعة لماليته، وتفويتٌ لذكاته الشرعية، فلهذه المفاسد، ولعدم الفائدة من قتله، نهي عن صبره، والنَّهي يقتضي التحريم، وفي ذلك سمو الشريعة الإسلامية وشمول تعاليمها وآدابها, حيث أوجبت الشفقة على الناس وعلى البهائم والطيور.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں جانوروں بلکہ کسی بھی ذی روح کو قید میں رکھ کر مارنے سے منع کیا گیا ہے۔ اس کے اندر غیر شرعی طریقے سے مار کر تلف کرنا بھی شامل ہے۔ مثال کے طور پر نشانہ بناکر تیر اندازی کرنا وغیرہ۔ کیونکہ اس میں جانور کو عذاب دینا، اس کی جان کو تلف کرنا، اس کی مالیت کو ضائع کرنا اور شرعی طور پر ذبح نہ کرنا جیسے مفاسد پائے جاتے ہيں۔ ان مفاسد کے ساتھ ساتھ چونکہ یہ ایک بے سود قتل ہے، اس لیے شریعت نے اس سے منع کیا ہے اور حدیث میں وارد نہی کا صیغہ حرمت کا تقاضا کرتا ہے۔ شریعت اسلامی کا اس طرح انسانوں کے ساتھ ساتھ جانوروں اور پرندوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کا برتاو روا رکھنا، اس کی عظمت اور اس کی تعلیمات کی ہمہ گیری کا بین ثبوت ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64656

 
 
Hadith   2072   الحديث
الأهمية: من كان له سعة، ولم يضح، فلا يقربن مصلانا


Tema:

جو شخص طاقت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے

عن أبي هريرة، أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «مَن كان له سَعَة، ولمْ يُضَحِّ، فلا يَقْرَبَنّ مُصَلّانا».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جو شخص استطاعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ ہماری عیدگاہ کے قریب نہ آئے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر أبو هريرة -رضي الله عنه- في هذا الحديث أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: أي مسلم كانت عنده قدرة على أن يضحي لكنه لم يفعل فلا يقرب مصلى العيد ولا يصلي مع الناس, لأنه لا ينبغي  للمسلم أن يترك الأضحية وعنده قدرة على ذلك, فالأضحية عبادة عظيمة وشعيرة في يوم عيد الأضحى، والجمهور على أنها سنة مؤكدة، وقال بعض العلماء بوجوبها في حق القادر.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میںابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو مسلمان قربانی کرنے کی طاقت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے، وہ عیدگاہ کے قریب نہ آئے اور لوگوں کے ساتھ عید کی نماز نہ پڑھے۔ کیونکہ کسی مسلمان کو زیب نہیں دیتا کہ استطاعت ہونے کے باوجود قربانی نہ کرے۔ قربانی ایک بہت بڑی عبادت اور عید الاضحی کے دن کا ایک دینی شعار ہے۔ جمہور علما اسے سنت موکدہ کہتے ہیں، جب کہ کچھ علما استطاعت رکھنے والے کے حق میں واجب کہتے ہیں۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64660

 
 
Hadith   2073   الحديث
الأهمية: نحرنا مع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عام الحديبية البدنة عن سبعة، والبقرة عن سبعة


Tema:

ہم نے حدیبیہ کے سال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ کی قربانی سات افراد کی طرف سے کی اور گائے کی قربانی بھی سات افراد کی طرف سے كى

عن جابر بن عبد الله، قال: «نَحَرْنَا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عَامَ الحُدَيْبِيَة البَدَنَةَ عن سَبْعَة، والبَقَرَةَ عن سَبْعَة»

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: "ہم نے حدیبیہ کے سال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اونٹ کی قربانی سات افراد کی طرف سے کی اور گائے کی قربانی بھی سات افراد کی طرف سے كى"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث يخبر جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- أنهم عام الحديبية نحروا مع النبي -صلى الله عليه وسلم- ما كان معهم من الهدي، فأمرهم النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يشترك السبعة في بدنة أو في بقرة فاشتركوا، فكان السبعة من الرجال يشتركون في بدنة، وكان السبعة يشتركون في بقرة.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کر رہے ہیں کہ صحابه كرام نے حدیبیہ کے سال اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ, اپنے ساتھ موجود ہدی کے جانور ذبح کیے تو آپ نے اونٹ میں سات افراد اور گائے میں بھی سات افراد کو شریک ہونے کا حکم دیا۔ سو انھوں نے اس کی تعمیل کی, چنانچہ سات سات افراد, اونٹ اور گائے دونوں کی قربانی میں, شریک ہوتے تھے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64665

 
 
Hadith   2074   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عَقَّ عن الحسن والحسين كبشًا كبشًا


Tema:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) میں سے ہر ایک کی جانب سے دو دو مینڈھے عقیقہ کیے

عن ابن عباس «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عَقَّ عن الحسن والحسين كَبْشًا كَبْشًا».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین (رضی اللہ عنہما) میں سے ہر ایک کی جانب سے دو دو مینڈھے عقیقہ کیے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث يخبر ابن عباس -رضي الله عنهما- أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- ذبح عن الحسن والحسين لكل واحد منهما كبشاً كبشًا، أي كبشين، فدلَّ هذا على مشروعية العقيقة عن المولود.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بتا رہے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن اور حسین رضی اللہ عنہما میں سے ہر ایک کی جانب سے دو دو مینڈھے عقیقہ کیے۔ یہ حدیث نومولود کی جانب سے عقیقہ کرنے کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64666

 
 
Hadith   2075   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أمرهم عن الغلام شاتان مكافئتان، وعن الجارية شاة


Tema:

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لڑکے کے عقیقہ میں بھیڑ اور بکری بکرا میں سے دو ایک جیسے کے ذبح کرنے کا اور لڑکی کے عقیقہ میں بھیڑ اور بکری بکرا میں سے ایک کے ذبح کرنے کا حکم دیا

عن عائشة «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أمرهم أن يُعَقَّ عن الغُلَامِ شَاتَانِ مُكَافِئَتَانِ، وعن الْجَارِيَةِ شَاةٌ».

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لڑکے کے عقیقہ میں بھیڑ اور بکری بکرا میں سے دو ایک جیسے کے ذبح کرنے کا اور لڑکی کے عقیقہ میں بھیڑ اور بکری بکرا میں سے ایک کے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث تخبر عائشة -رضي الله عنها- أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- أمرهم أن يعقوا -أي يذبحوا عند الولادة- عن المولود الذكر شاتان متشابهتان في السِّن والكِبَر والسِّمن والجودة، وكذلك أمرهم أن يعقوا عن المولودة الأنثى شاة واحدة.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں عائشہ رضی اللہ عنہا بتا رہی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے لڑکے کی ولادت پر اس کی جانب سے بھیڑ اور بکرى بکرا میں سے دو کے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے، جو عمر، موٹاپے اور عمدگی میں ایک جیسے ہوں, اور لڑکی کی ولادت پر بھیڑ اور بکرى بکرا میں سے ایک کے ذبح کرنے کا حکم دیا ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64667

 
 
Hadith   2076   الحديث
الأهمية: الغلام مرتهن بعقيقته يذبح عنه يوم السابع، ويسمى، ويحلق رأسه


Tema:

بچہ اپنے عقیقے کے بدلے میں گروی رکھا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے گا، اس کا نام رکھا جائے گا اور اس کا سر مونڈا جائے گا

عن سمرة قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «الغلام مُرْتَهَنٌ بِعَقِيقَتِهِ يُذْبَحُ عنه يوم السابع، ويُسَمَّى، ويُحْلَق رأسه».

سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "بچہ اپنے عقیقے کے بدلے میں گروی رکھا ہوا ہوتا ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے گا، اس کا نام رکھا جائے گا اور اس کا سر مونڈا جائے گا"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن المولود يكون محبوساً بعقيقته تذبح عنه في اليوم السابع من ولادته، ويُستحب في نفس اليوم  تسمية المولود، وحلق شعر رأسه، والحلق خاص بالمولود الذكر.

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
اس حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ بچہ اپنے عقیقہ کے بدلے میں محبوس ہوتا ہے۔ اس کی جانب سے اس کی ولادت کے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے گا۔ اسی دن اس کا نام رکھنا اور اس کے سر کے بال مونڈنا بھی سنت ہے۔ یاد رہے کہ بال مونڈنے کی بات لڑکے کے ساتھ خاص ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64668

 
 
Hadith   2077   الحديث
الأهمية: أنزلت هذه الآية: {لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم} [البقرة: 225] في قول الرجل: لا والله وبلى والله


Tema:

یہ آیت کریمہ : {لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم} [البقرة: 225] (اللہ تمھاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا) آدمی کے "نہیں، اللہ کی قسم" اور "ہاں، اللہ کی قسم" کہنے کے بارے میں اتری تھی۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: "أُنْزِلَتْ هذه الآية: {لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم} [البقرة: 225] في قول الرجل: لا والله وبَلَى والله".

عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، وہ کہتی ہیں: "یہ آیت کریمہ : {لا يؤاخذكم الله باللغو في أيمانكم} [البقرة: 225] (اللہ تمھاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا) آدمی کے "نہیں، اللہ کی قسم" اور "ہاں، اللہ کی قسم" کہنے کے بارے میں اتری تھی"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال -تعالى-: {لَا يُؤَاخِذُكُمُ الله بِاللَّغْوِ في أَيْمَانِكُمْ} [المائدة: 89] فسَّرت عائشة -رضي الله عنها- لغو اليمين هنا: بأنَّه ما يتردَّد على ألسنة النّاس أثناء المحادثة عن قولهم: لا والله، وبلى والله، ممَّا يجري على اللسان، ولا يقصده القلب؛ وكذلك من لغو اليمين المذكور في الآية حلف الإنسان على أمرٍ ماضٍ يظنه كما قال، فبان بخلاف ما ظن.
وكذا يمين عقدها يظن صدق نفسه، فبان خلافه، فلغو غير منعقدة، ولا كفَّارة فيها لقوله -تعالى-: {لَا يُؤَاخِذُكُمُ الله بِاللَّغْوِ في أَيْمَانِكُمْ} أي: لا يعاقبكم، ولا يلزمكم كفَّارة بما صدر منكم من الأيمان التي لا يقصدها الحالف.
وكذا لو عقدها ظانًّا صدقه، فلم يكن، كمن حلف على غيره يظن أنَّه يطيعه، فلم يفعل، وأولى ما يدخل في الآية تفسير عائشة -رضي الله عنها-؛ لأنها شاهدت التنزيل وهي عارفة بلغة العرب.
575;للہ تعالی کے فرمان : {لَا يُؤَاخِذُكُمُ الله بِاللَّغْوِ في أَيْمَانِكُمْ} [المائدة: 89] (اللہ تمھاری قسموں میں لغو قسم پر تم سے مواخذہ نہیں فرماتا) میں مذکور لغو قسم کی تفسیر کرتے ہوئے عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس سے مراد بات چیت کے وقت بلا قصد و ارادہ لوگوں کی زبان پر بار بار آنے والے قسمیہ الفاظ، جیسے نہیں اللہ کی قسم اور ہاں اللہ کی قسم وغیرہ ہیں۔ اسی طرح آیت میں مذکور لغو یمین کی ایک صورت یہ ہے کہ آدمی کسی ایسی گزری ہوئی بات کے بارے میں قسم کھائے، جسے وہ ویسی ہی سمجھتا ہو، جیسی اس نے کہا ہے، لیکن بعد میں پتہ چلے کہ معاملہ اس کے ظن و گمان کے برخلاف تھا۔
یہی حال اس قسم کا بھی ہے، جو آدمی یہ سمجھ کر کھائے کہ وہ سچا ہے، لیکن معاملہ اس کے برخلاف ظاہر ہو۔ اس طرح کی قسم بھی لغو اور غیر مؤثر ہے اور اس کا کفارہ بھی نہیں دینا ہے، کیونکہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے : {لَا يُؤَاخِذُكُمُ الله بِاللَّغْوِ في أَيْمَانِكُمْ} یعنی تمھیں ان کی سزا نہیں دے گا اور تمھیں ایسی قسموں کا کفارہ ادا کرنے کا بھی پابند نہيں بنائے گا، جو آدمی بلاقصد و ارادہ کھائے۔
اس کی ایک صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ آدمی یہ سمجھ کر قسم کھائے کہ فلاں آدمی کوئی کام کرے گا، لیکن نہ کرے۔ مثال کے طور پر کوئی دوسرے کے بارے میں یہ قسم کھائے کہ وہ اس کی بات مان لے گا، لیکن وہ نہ مانے۔
یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر، لیکن اس آیت کے ضمن میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی تفسیر سب سے پہلے شامل ہوگی۔ کیونکہ انھوں نے نزول وحی کا مشاہدہ کیا ہے اور وہ عربی زبان سے بھی واقف ہیں۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64672

 
 
Hadith   2078   الحديث
الأهمية: إن لله تسعة وتسعين اسما مائة إلا واحدًا، من أحصاها دخل الجنة


Tema:

اللہ کے ننانوے یعنی ایک کم ایک سو نام ہیں، جو ان کی حفاظت کرے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إن لله تِسْعَةً، وتِسْعِينَ، اسْمًا، مِائَةً إلا واحدا مَنْ أَحْصَاهَا دخل الجنة».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اللہ کے ننانوے یعنی ایک کم ایک سو نام ہیں، جو ان کی حفاظت کرے گا، وہ جنت میں داخل ہوگا"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث فيه بيان أنَّ أسماء الله الحسنى منها 99 اسمًا من حفظها وآمن بها وعمل بمدلولها فيما لا يختص به -سبحانه- فله الجنة، ويجوز القسم بأي واحدٍ منها، وانعقاده بها، فاليمين التي تجب بها الكفارة إذا حنث فيها هي اليمين بالله -تعالى-، والرحمن الرحيم، أو بصفة من صفاته تعالى؛ كوجه الله -تعالى- وعظمته وجلاله وعزته.
575;س حدیث میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اللہ کے ناموں میں سے ننانوے نام ایسے ہیں کہ جو ان کی حفاظت کرے گا، ان پر ایمان رکھے گا اور ان کے ایسے مدلولات پر عمل کرے گا، جو اللہ سبحانہ و تعالی کے ساتھ خاص نہیں ہیں، تو اس کے لیے جنت ہے۔ یہاں یہ بتا دیں کہ اللہ کے ان ناموں میں سے کسی بھی نام کی قسم کھانا جائز ہے اور اس سے قسم واقع بھی ہو جائے گی۔ چنانچہ وہ قسم، جسے توڑنے پر کفارہ واجب ہوتا ہے، وہ قسم ہے، جو اللہ کی، رحمن کى اور رحیم کی یا اس کی کسی صفت کی، جیسے اس کے چہرے، اس کی عظمت وجلال اور عزت کی کھائی جائے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64673

 
 
Hadith   2079   الحديث
الأهمية: كفارة النذر كفارة اليمين


Tema:

نذر کا کفارہ وہی ہے، جو قسم کا ہے

عن عقبة بن عامر -رضي الله عنه- عن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «كَفَّارَةُ النَّذْرِ كفارةُ اليَمِين».

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "نذر کا کفارہ وہی ہے، جو قسم کا ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أن كفارة النذور هي كفارة اليمين: إطعام عشرة مساكين أو توفير كسوة لهم من ثياب أو تحرير مملوك من الرق، فإن لم يستطع فصيام ثلاثة أيام.
هذ إن لم يوف به العبد، والنذور المقصودة في الحديث أنواع:
أحدها: أنَّ ينذر نذرًا مطلقًا، كأنْ يقول: لله عليَّ نذرٌ، ولم يسم شيئًا، أو لله عليَّ نذر إنْ فعلت كذا، فهذا يجب عليه في حنثه كفَّارة يمين.
الثاني: أنْ ينذر فعل معصية من المعاصي، أو ترك واجب من الواجبات عليه، فهذا يجب عليه الحنث؛ لحديث عائشة -رضي الله عنها- مرفوعًا: "لا نذر في معصية وكفارته كفارة يمين". رواه الخمسة وصححه الألباني.
الثالث: أن ينذر نذرًا لا يطيقه ويشق عليه مشقَّة كبيرة؛ من عبادة بدنية مستمرة، أو نفقات من ماله باهظة، فعليه كفارة يمين؛ فقد أخرج البيهقي عن عائشة -رضي الله عنها- في رجلٍ جعل ماله للمساكين صدقة، فقالت: "كفارة يمين".
الرَّابع: نذر التبرر؛ كالصلاة، والصوم، والحج، والعمرة، بقصد التقرب إلى الله -تعالى-، فيلزم الوفاء، سواءٌ نذره نذرًا مطلقا، أو علَّقه على حصول نعمة، أو اندفاع نقمة؛ كقوله: إنْ شَفَى الله مريضي، أو سَلِمَ مَالِي الغائب، ونحوه، فعليه كذا، أو حلف بقصد التقرب، كقوله: إنْ سلم مالي لأتصدقنَّ بكذا، فيلزمه الوفاء به إذا وُجِدَ شرطه.
575;س حدیث میں بتایا گیا ہے کہ نذر کا کفارہ وہی ہے، جو قسم کا ہے۔ یعنی دس مسکینوں کو کھانا کھلانا، یا انھیں پہننے کو کپڑے دینا یا کسی غلام کو غلامی کے بندھن سے آزاد کرنا۔ اگر ان میں سے کسی کی طاقت نہ ہو، تو تین روزے رکھنا۔
واضح رہے کہ یہ کفارہ اس وقت ادا کرنا ہے، جب آدمی نذر پوری نہ کرے۔ اس بات کا بھی دھیان رہے کہ اس حدیث سے مقصود نذر کی کئی قسمیں ہیں:
پہلی قسم یہ ہے کہ آدمی مطلق نذر مانے، مثلا یہ کہے کہ میرے اوپر اللہ کے لیے نذر ہے۔ وہ کسی چیز کا ذکر نہ کرے۔ یا پھر کہے کہ اگر میں نے ایسا کیا تو میرے اوپر اللہ کے لیے نذر ہے۔ ایسے میں اگر آدمی نذر کی پابندی نہیں کرتا، تو اس پر کفارہ واجب ہے۔
دوسری قسم یہ ہے کہ آدمی کسی گناہ کے ارتکاب یا کسی واجب کو چھوڑنے کی نذر مانے۔ ایسے میں اس پر نذر کو توڑنا واجب ہے، کیونکہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی مرفوع حدیث ہے : "کسی گناہ کے ارتکاب کی نذر ماننا درست نہیں ہے اور اس کا کفارہ وہی ہے جو قسم کا کفارہ ہے۔" اسے ابوداود، نسائی، ترمذی، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح قرار دیا ہے۔
تیسری قسم یہ ہے کہ آدمی ایسی نذر مانے، جسے پورا کرنے کی اس کے پاس طاقت نہ ہو اور وہ اس کے لیے بہت بڑی مشقت کا سبب بن جائے۔ چاہے وہ مسلسل بدنی عبادت ہو یا ناقابل برداشت مالی نفقے کا بوجھ۔ اس طرح کی نذر ماننے والے پر نذر کا کفارہ واجب ہے، کیونکہ بیہقی نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے اپنا پورا مال مسکینوں کو صدقے میں دے دیا، تو انھوں نے کہا کہ اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہے۔
چوتھی قسم یہ ہے کہ آدمی اللہ کی نزدیکی حاصل کرنے کے لیے نماز، روزہ، حج اور عمرہ وغیرہ کی نذر مانے۔ ایسی نذر کو پورا کرنا واجب ہے۔ چاہے وہ مطلق نذر ہو یا اسے کسی نعمت کے حصول یا عذاب سے بچاو پر معلق رکھا ہو۔ مثلا کوئی یہ کہے کہ اگر اللہ نے میرے مریض کو شفا دے دی یا میرا غائب مال محفوظ رہا تو وہ ایسا کرے گا۔ یا پھر کسی عبادت کی قسم کھائے۔ مثلا یہ کہے کہ اگر میرا مال محفوظ رہا تو میں اتنا صدقہ کر دوں گا۔ ایسی صورت میں اگر شرط پائی جاتی ہے، تو اسے پورا کرنا واجب ہوگا۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64675

 
 
Hadith   2080   الحديث
الأهمية: إنكم ستحرصون على الإمارة، وستكون ندامة يوم القيامة، فنعم المرضعة وبئست الفاطمة


Tema:

بلاشبہ تم لوگ امارت کی چاہت رکھوگے، لیکن وہی امارت قیامت کے دن تمھارے لیے ندامت کا سبب بنے گی, پس کیا ہی اچھی ہوتی ہے دودھ پلانے والی اور کیا ہی بری ہوتی ہے دودھ چھڑانے والی

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إنكم سَتَحْرِصُونَ على الإِمَارَة، وستكون نَدَامَةً يوم القيامة، فَنِعْمَ المُرْضِعَةُ وَبِئْسَتِ الفَاطِمَةُ».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: "بلاشبہ تم لوگ امارت کی چاہت رکھوگے، لیکن وہی امارت قیامت کے دن تمھارے لیے ندامت کا سبب بنے گی, یپس کیا ہی اچھی ہوتی ہے دودھ پلانے والی اور کیا ہی بری ہوتی ہے دودھ چھڑانے والی"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث ينبه على عظم شأن الإمارة -وما هو في حكمها كالقضاء- وكثرة تبعاتها ومسؤولياتها في الدار الآخرة, والتحذير من طلبها والحرص عليها, وهذا مقيد بمن دخل فيها بسعي منه وحرص عليها وكان غير أهلٍ لها, بخلاف من وُكِلت إليه ولم يسعَ لها وكان أهلا لها وعدل فيها فإنه سيُعان عليها كما جاء في أحاديث أخرى, وقد شبهت الإمارة في الحديث بأنها نعم المرضعة بما تدر من منافع المال والجاه ونفاذ الحكم، وبئس الفاطمة بتبعاتها يوم القيامة وحسراتها.
740;ہ حدیث امارت اور اس کے حکم میں داخل دیگر عہدوں جیسے منصب قضا وغیرہ کی اہمیت اور آخرت میں درپیش ہونے والے اس کے بے شمار لوازمات اور ذمے داریوں سے آگاہ کرتی ہے۔ اسی طرح اسے طلب کرنے اور اس کی چاہت رکھنے سے بھی گریزاں رہنے کی تاکید کرتی ہے۔ لیکن یہ ممانعت اس کے لیے ہے، جو اہلیت نہ رکھنے کے باوجود تگ و دو کرکے منصب حاصل کرے اور اس کی حرص رکھے۔ اس کے برخلاف، اگر کسی کے اندر اہلیت ہو اور اس کی جانب سے کسی تگ و دو کے بنا ہی اسے ذمے داری دی جائے اور وہ عدل ونصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اس ذمے داری کو نبھائے، تو اسے اللہ کی مدد حاصل ہوگی، جیسا کہ اس کا ذکر دیگر حدیثوں میں آیا ہے۔ اس حدیث میں امارت کی تشبیہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ ایک بہترین دودھ پلانے والی ہے، کیونکہ وہ مال و دولت، جاہ و منصب اور حکم نافذ کرنے کی طاقت جیسے منافع دیتی ہے اور قیامت کے دن اپنے لوازمات اور حسرت سامانیوں کی وجہ سے بری دودھ چھڑانے والی ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64681

 
 
Hadith   2081   الحديث
الأهمية: إذا حكم الحاكم فاجتهد ثم أصاب فله أجران، وإذا حكم فاجتهد ثم أخطأ فله أجر


Tema:

جب حاکم کوئی حکم دینے کا ارادہ کرے اور اجتہاد سے کام لے، پھر صحیح حکم دینے میں کامیاب ہو جائے، تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے اور اگر اجتہاد کرے پھر حکم دے لیکن اجتہاد میں غلطی کر جائے تو بھی اسے ایک اجر ملے گا

عن عمرو بن العاص -رضي الله عنه- أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «إِذَا حَكَمَ الحَاكِمُ فَاجْتَهَدَ ثم أَصابَ فله أَجْرَان، وإِذا حَكَمَ فَاجْتَهَدَ ثم أَخْطَأَ فله أَجْرٌ».

عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: "جب حاکم کوئی حکم دینے کا ارادہ کرے اور اجتہاد سے کام لے، پھر صحیح حکم دینے میں کامیاب ہو جائے، تو اس کے لیے دوہرا اجر ہے۔ اور اگر حکم دینے کا ارادہ کرے اور صحیح حکم دینے کی پوری کوشش کرے، پھر ناکام ہو جائے تو اس کے لیے اکھرا اجر ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين الحديث أن الحاكم إذا بذل جهده في القضية، واجتهد فيها حتَّى وصل باجتهاده إلى ما يعتقد أنَّه الحق في القضية، ثم حكم فإنْ كان حكمه صواباً موافقاً للحقِّ، وهو مراد الله -تعالى- في أحكامه، فله أجران: أجر الاجتهاد، وأجر إصابة الحق.
وإنْ اجتهد؛ ولكنَّه لم يصل إلى الصواب، فله أجرٌ واحد، هو أجر الاجتهاد؛ لأنَّ اجتهاده في طلب الحقِّ عبادة، وفاته أجر الإصابة, ولا يأثم بعدم إصابة الحق بعد بذله جهده واجتهاده، بشرط أنْ يكون عالماً مؤهَّلاً للاجتهاد.
740;ہ حدیث یہ بتاتی ہے کہ کوئی حاکم جب کسی مسئلے پر اجتہاد کرنے کے بعد کسی نتیجے پر پہنچے اور سمجھے کہ اس مسئلے میں یہی حق ہے، پھر فیصلہ دے دے، تو اب اگر اس کا فیصلہ صحیح، حق کے موافق ہوا اور اللہ کی منشا کے مطابق ہوا، تو اسے دوہرا اجر ملے گا۔ ایک اجتہاد کرنے کا اجر اور دوسرا حق کے موافق فیصلہ کرنے کا اجر۔
لیکن اگر اجتہاد تو کرے، لیکن صحیح فیصلے تک پہنچ نہ سکے، تو اسے ایک ہی اجر ملے گا۔ یعنی صحیح فیصلے تک پہنچنے کے لیے اجتہاد کا اجر، کیوں کہ حق تک پہنچنے کے لیے اجتہادکرنا عبادت ہے۔ ہاں، اسے صحیح فیصلہ دینے کا ثواب نہیں ملے گا اور ساتھ ہی اجتہاد کے بعد صحیح فیصلہ نہ دے پانے کا گناہ بھی نہیں ہوگا۔ بس شرط یہ ہے کہ وہ جانکار ہو اور اجتہاد کی صلاحیت رکھتا ہو۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64682

 
 
Hadith   2082   الحديث
الأهمية: لن يفلح قومٌ وَلَّوا أمرهم امرأةً


Tema:

وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، جس نے اپنے معاملوں کی باگ ڈور کسی عورت کو سونپ دی ہو

عن أبي بَكْرَةَ -رضي الله عنه- قال: لقد نَفَعني الله بكلمة سمعتُها من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أيَّام الجَمَل، بعد ما كدْتُ أنْ ألْحَقَ بأصحاب الجَمَل فَأُقاتِل معهم، قال: لمَّا بلَغَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن أهل فَارِس، قد مَلَّكوا عليهم بنت كِسْرَى، قال: «لن يُفْلِح قوم ولَّوْا أمْرَهُم امرَأة».

ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے اللہ نے جنگ جمل کے دنوں میں ان الفاظ سے فائدہ پہنچایا، جو میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھے تھے۔ بعد اس کے کہ قریب تھا کہ میں اصحاب جمل کى جماعت میں شامل ہو کر ان کى معیت میں جنگ کروں۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ اطلاع ملی تھی کہ اہل فارس نے کسری کی بیٹی کو اپنا بادشاہ بنا لیا ہے، تو آپ نے کہا تھا: "وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، جس نے اپنے معاملوں کی باگ ڈور کسی عورت کو سونپ دی ہو"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر أبو بكرة -رضي الله عنه- أن الله -تعالى- قد نفعه أيام وقعة الجمل المشهورة, بكلمة سمعها من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-, وكان انتفاع أبي بكرة -رضي الله عنه- بتلك الكلمة أن حفظته من الخروج والمشاركة في الفتنة, حيث أخبر أنه سمع رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لما بلغه أن الفرس ملَّكوا عليهم ابنة ملكهم بعد موته  يقول: «لن يفلح قوم ولوا أمرهم امرأة», والمعنى أنه لا يظفر بالخير ولا يبلغ ما فيه النفع لأمته من جعل للمرأة ولاية عامة من رئاسة أو وزارة أو إدارة أو قضاء, ونحوه؛ وذلك لأن الله -تعالى- فضَّل الرِّجال على النِّساء في أصل الخِلْقة، وأعطاهم ما لم يعطهنَّ من الحول والقوَّة، فكانوا أنسب لتولي مثل هذه المناصب.
575;بو بکرہ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ مشہور لڑائی جنگ جمل کے دنوں میں اللہ نے انھیں ایک حدیث سے فائدہ پہنچایا، جسے انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھا تھا۔ دراصل اس حدیث سے ان کو فائدہ یہ ہوا کہ جنگ کے میدان میں کودنے اور فتنے میں پڑنے سے محفوظ رہ گئے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا کہ اہل فارس نے اپنے بادشاہ کے انتقال کے بعد اس کی بیٹی کو بادشاہ بنا لیا ہے، تو آپ نے کہا: "وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی، جس نے اپنے معاملوں کی باگ ڈور کسی عورت کو سونپ دی ہو"۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں نے کسی عورت کو صدارت، وزارت، ادارت یا قضا جیسے اونچے عوامی عہدے دے دیے، انھوں نے اپنی قوم کا کچھ بھلا نہیں کیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے فطری طور پر مردوں کو عورتوں پر برتری عطا کی ہے اور انھیں عورتوں سے کہیں زیادہ طاقت و قوت دی ہے، اس لیے وہی یعنی مرد ہی ان اعلی مناصب کے لیے زیادہ مناسب ہیں۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64687

 
 
Hadith   2083   الحديث
الأهمية: من ولاه الله -عز وجل- شيئًا من أمر المسلمين فاحتجب دون حاجتهم وخلتهم وفقرهم، احتجب الله عنه دون حاجته وخلته وفقره


Tema:

جسے اللہ عز وجل مسلمانوں کے کسی معاملے کا والی بنائے اور وہ ان کی حاجت، ضرورت اور فقر سے نظر بچاکے رہے، تو اللہ اس کی ضرورت، حاجت اور فقر سے نظر بچا لے گا

عن أبي مريم الأزْدي، قال: دخلتُ على معاوية فقال: ما أنْعَمَنا بك أبا فلان -وهي كلمة تقولها العرب- فقلتُ: حديثًا سمعتُه أُخبرُك به، سمعتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «مَنْ ولَّاهُ الله -عز وجل- شيئًا مِنْ أَمْر المسلمين فاحْتَجَبَ دُونَ حاجَتِهم وخَلَّتِهِم وفقرهم، احْتَجَبَ الله عنه دون حاجَتِه وخَلَّتِهِ وفقره» قال: فَجَعَل رجلًا على حَوائِج الناس.

ابو مریم ازدی کہتے ہیں کہ میں معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا، تو انھوں نے کہا: اے ابو فلاں! وہ کون سی بات ہے، جس نے ہمیں آپ کی تشریف آوری کی سعادت عطا کی؟ -عرب کے لوگ کسی آنے والے کے استقبال میں یہ جملہ کہا کرتے تھے- میں نے کہا: میں نے ایک حدیث سن رکھی ہے، اسے آپ کو بتادینا چاہتا ہوں۔ میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: "جسے اللہ عز و جل مسلمانوں کے کسی معاملے کا والی بنائے اور وہ ان کی حاجت، ضرورت اور فقر سے نظر بچاکے رہے، تو اللہ اس کی ضرورت، حاجت اور فقر سے نظر بچا لے گا"۔ وہ کہتے ہیں : اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نے لوگوں کی ضرورت سننے کے لیے ایک آدمی متعین کر دیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر أبو مريم الأزدي أنه دخل على معاوية -رضي الله عنهما- يومًا, ففرح معاوية بدخوله عليه ورحب به, فحدثه أبو مريم بحديث سمعه من النبي -صلى الله عليه وسلم-، وفيه أن من جعله الله والياً على المسلمين، وملَّكه أمرهم فاحتجب عنهم, ولم يقم بما أوجبه الله -تعالى- من حقهم، وأغلق دونهم بابه فلم يصلوا إليه, فإنَّ الله -تعالى- يحتجب عن حاجته يوم القيامة، جزاءً وفاقاً؛ فالجزاء من جنس العمل، وكما تدين تُدان, وإذا احتجب الله دون حاجته منعه فضله وعطاءه ورحمته.
ولما حُدث معاوية -رضي الله عنه- بهذا الحديث؛ اتخذ رجلاً لحوائج الناس يستقبل الناس وينظر ما حوائجهم، ثم يرفعها إلى معاوية -رضي الله عنه- عندما كان أميراً للمؤمنين.
575;بو مریم ازدی کہتے ہیں کہ وہ ایک دن معاویہ رضی اللہ عنہما کے پاس گئے، تو وہ ان کی تشریف آوری سے بہت خوش ہوئے اور ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ پھر ابو مریم رضی اللہ عنہ نے انھیں ایک حدیث سنائی، جو انھوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سن رکھی تھی اور جس میں ہے کہ جسے اللہ مسلمانوں کا والی بنائے اور ان کے معاملات سنبھالنے کا موقع عطا کرے، پھر وہ لوگوں کے حقوق کو، جن کی ادائیگی اللہ نے اس پر واجب کی ہے، ادا نہ کرے، لوگوں کے لیے اپنا دروازہ بند رکھے اور ان کو ضرورت پیش کرنے کا موقع نہ دے، تو اللہ قیامت کے دن اس کی ضرورت سے پردہ کر لے گا۔ یہ دراصل اس کے عمل کا پورا پورا بدلہ ہوگا، کیونکہ اللہ کے یہاں ہر عمل کا بدلہ اسی جنس کے عمل سے دیا جاتا ہے اور جب اللہ اس کی جاجت سے پردہ کر لے گا، تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ اسے اپنے فضل و کرم، انعام و نوازش اور رحمت سے محروم کر دے گا۔ جب معاویہ رضی اللہ عنہ کو یہ حدیث سنائی گئی، تو انھوں نے ایک آدمی متعین کر دیا، جو لوگوں کا استقبال کرے، ان کی ضروریات کو سنے پھر ان کو ان تک پہنچائے، یہ اس وقت کى بات ہے جب وہ امیرالمؤمنین ہوا کرتے تھے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64688

 
 
Hadith   2084   الحديث
الأهمية: لعن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الراشي والمرتشي في الحكم


Tema:

اللہ کے رسول ﷺ نے فیصلے کو متاثر کرنے کے لیے رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر لعنت کی ہے

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: «لَعَن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- الرَّاشِي والمُرْتَشِي في الحُكْم».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں : "اللہ کے رسول ﷺ نے فیصلے کو متاثر کرنے کے لیے رشوت دینے اور رشوت لینے والے پر لعنت کی ہے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما كانت حقيقة الرشوة بذل المال ليتوصل به إلى باطل, دعا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بالطرد والإبعاد من رحمة الله على معطيها وآخذها؛ لما فيها من أضرار جسيمة على الفرد والمجتمع, والرشوة محرمة مطلقًا, وجاء تخصيصها بالحكم في الحديث؛ لأن الرشوة لأجل الحكم أعظم لما في ذلك من تبديل حكم الشرع, بأن يعطى القاضي ما يكون له أثر في تغيير الحكم أو تخفيفه واعتباره في صالح الراشي.
670;وں کہ رشوت نام ہی ہے ناجائز مقاصد کے حصول کے لیے مال خرچ کرنے کا، اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے رشوت دینے اور لینے والے کے حق میں دھتکارے جانے اور اللہ کی رحمت سے دور کیے جانے کی بد دعا کی ہے۔ پھر کیونکہ فرد اور سماج دونوں کے لیے رشوت کے نقصانات بہت ہى بڑے ہین-اور رشوت مطلق طور پر حرام ہے۔ لیکن، اسے اس حدیث میں فیصلے کے ساتھ خاص کرکے اس لیے بیان کیا گیا ہے، کیوں کہ فیصلے کى وجہ سے رشوت دینا اور زیادہ بڑا جرم ہے، کیوں کہ یہ شریعت کے حکم کو بدلنے کی کوشش ہے, بعیں طور کہ قاضی کو کوئی ایسی چیز دے دی جائے، جو فیصلے کو بدلنے، اس کی دھار کو کند کرنے اور رشوت دینے والے کے مفاد کے تحفظ میں اثر انداز ہو۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64689

 
 
Hadith   2085   الحديث
الأهمية: ألا أخبركم بخير الشهداء الذي يأتي بشهادته قبل أن يُسْألها


Tema:

کیا میں تمھیں نہ بتاوں کہ سب سے اچھا گواہ کون ہے؟ وہ جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے

عن زيد بن خالد الجهني أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «ألا أُخبِرُكُم بخير الشُّهَدَاء الذي يَأتي بِشَهادَتِهِ قبل أن يُسْأَلَهَا».

زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "کیا میں تمھیں نہ بتا دوں کہ سب سے اچھا گواہ کون ہے؟ وہ جو گواہی طلب کیے جانے سے پہلے ہی گواہی دے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد الحديث أفضلية من يأتي بالشهادة قبل أن تطلب منه، وهذا دليل على خيريته ومبادرته إلى أداء الشهادة حفظا للحقوق، والحديث محمول على ما إذا كان صاحب الحق لا يعلم بهذه الشهادة أو نسيها، فإنه يشرع للشاهد أن يبادر بها وإن لم تطلب منه، وهذا هو أحسن الوجوه في الجمع بين هذا الحديث, وبين الأحاديث التي فيها ذم من يشهد قبل أن يستشهد.
575;س حدیث میں سب سے اچھا گواہ اسے کہا گيا ہے، جو گواہی طلب کرنے سے پہلے گواہی دے۔ یہ دحدیث دراصل اس کے ایک بہترین انسان ہونے اور حقوق کو پامال ہونے سے بچانے کے جذبے کے ساتھ آگے بڑھنے کے اقدام کے استحسان کی دلیل ہے۔ لیکن یہ حدیث اس حالت پر محمول ہوگی، جب صاحب حق اس گواہی سے واقف نہ ہو یا بھول گیا ہو۔ ایسی صورت میں گواہ کے لیے گواہی درج کرانے کے لیے آگے بڑھنا مشروع ہے۔ گرچہ اس سے گواہی طلب نہ کی گئی ہو۔ دراصل یہ سب سے بہتر صورت ہے اس حدیث کے اور ان حدیثوں کے بیچ تطبیق کی، جن کے اندر بن بلائے گواہی دینے کی مذمت کی گئی ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64691

 
 
Hadith   2086   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قضى بيمين وشاهد


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے نکاحِ شغار سے منع فرمایا ہے۔

عن ابن عباس «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قَضَى بِيَمِين وشَاهِدٍ».

ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث أصل عند الفقهاء، وقد أفاد أن النبي -عليه الصلاة والسلام- حَكَمَ بيمين المُدعي وشاهد واحد معه على صحة ما ادعى، وذلك إذا تعذر عليه إحضار شاهد آخر، وهذا خاص بالأموال وما في معناها، لكن يجب تقديم الشهادة، فيشهد الشاهد أولًا ثم يحلف المدعي؛ لأنه إذا أتى بشاهد فالنصاب لم يتم، لكن ترجح جانبه؛ لأن اليمين تشرع في جانب أقوى المتداعيين، وقد ذهب إليه جماهير من الصحابة والتابعين والأئمة الثلاثة مالك والشافعي وأحمد.

 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64695

 
 
Hadith   2087   الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- عرض على قوم اليمين، فأسرعوا فأمر أن يسهم بينهم في اليمين أيهم يحلف


Tema:

رسول الله آ اپنی اونٹنی کی پیٹھ پر نفل نماز سر کے اشاروں سے پڑھتے تھے، چاہے اس کا رخ جس جانب بھی ہوتا۔ عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی اسی طرح کیا کرتے تھے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- عَرَضَ على قوم اليَمِين، فَأَسْرَعُوا فَأَمَرَ أن يُسْهَمَ بينهم في اليمين أَيُّهُم يَحْلِفُ».

575;بوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جس شخص سے علم کی بات پوچھی گئی اور اس نے اسے چھپالیا، تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد  الحديث: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- تخاصم إليه اثنان تنازعا عيناً ليست في يد واحدٍ منهما، ولا بينة لواحد منهما، وكانت تلك العين في يد شخص ثالث غيرهما، فعرض عليهما النبي -صلى الله عليه وسلم- اليمين، فتسارعا إليه وبادر كل منهما للحلف قبل الآخر، فأمر أن يسهم بينهم في اليمين أيهم يحلف، أي فأجرى -صلى الله عليه وسلم- بينهما قرعة، فأيهم خرج سهمه وَجَّه إليه اليمين.
فدل هذا الحديث على أنه إذا تداعى رجلان متاعاً في يد ثالث، ولم يكن لهما بينة، أو لكل منهما بينة، وقال الثالث: لا أعلم إن كان هذا المتاع لهذا أو ذاك، فالحكم أن يقرع بين المتداعيين، فأيهما خرجت له القرعة يحلف ويعطى له.

 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64696

 
 
Hadith   2088   الحديث
الأهمية: لا يحلف أحد عند منبري هذا على يمين آثمة، ولو على سواك أخضر، إلا تبوأ مقعده من النار


Tema:

جو شخص میرے اس منبر کے پاس گناہ پر مبنی قسم کھائے گا، چاہے ایک مسواک کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے گا

عن جابر بن عبد الله قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا يحْلِفُ أحدٌ عند مِنْبَرِي هذا على يَمينٍ آثِمَة، ولو على سِواكٍ أَخْضَرَ، إلا تَبَوَّأَ مَقْعَدَه مِن النار -أو وَجَبَتْ له النار-».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جو شخص میرے اس منبر کے پاس گناہ پر مبنی قسم کھائے گا، چاہے ایک ہری مسواک کے بارے میں ہی کیوں نہ ہو، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے گا، یا فرمایا کہ اس کے لیے جہنم واجب ہو جائے گی"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث يخبر جابر -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- بيّن عظيم إثم من حلف عند منبره -صلى الله عليه وسلم- الذي بمسجده كاذبًا في يمينه, ولو كان المحلوف عليه شيئًا حقيراً, لأن هذا المكان محل تعظيم له -صلى الله عليه وسلم-, ومحل تذكر لما كان يقوله -صلى الله عليه وسلم- على هذا المنبر, فجاء هذا الحالف بأضداد هذه الأوصاف, فاستحق هذا الوعيد, واليمين الآثمة موجبة للسخط حيث وقعت، لكنها في الموضع الشريف أكثر إثمًا.
575;س حدیث میں جابر رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے بہت بڑے گناہگار ہونے کی بات کہی ہے، جو مسجد نبوی میں رکھے ہوئے آپ کے منبر کے پاس جھوٹی قسم کھائے، چاہے اس نے قسم کسی حقیر چیز کے بارے میں ہی کیوں نہ کھائی ہو۔ کیونکہ یہ جگہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم اور آپ اس پر کھڑے ہوکر جو کچھ کہا کرتے تھے، اسے یاد کرنے کی جگہ ہے۔ جب کہ جھوٹی قسم کھانے والا ان باتوں کے برخلاف کام کرتا ہے۔ لہذا، وہ اس طرح کی وعید کا مستحق ہے۔ ویسے تو کسی بھی جگہ جھوٹی قسم کھانا اللہ کی ناراضگی کا باعث ہے، لیکن کسی مبارک جگہ پر اس کا گناہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64698

 
 
Hadith   2089   الحديث
الأهمية: أيما رجل أعتق امرأ مسلمًا، استنقذ الله بكل عضوٍ منه عضوًا منه من النار


Tema:

جس آدمی نے کسی مسلمان کو آزاد کیا، اللہ اس آزاد کردہ غلام کے ہر ایک عضو کے بدلے میں اس کے کسى ایک عضو کو آگ سے بچائے گا

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال النبي -صلى الله عليه وسلم-: «أَيُّمَا رَجُلٍ أَعْتَقَ امْرَأً مسلمًا، استَنْقَذَ الله بكلِّ عُضْوٍ منه عُضْوا منه مِن النار».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جس آدمی نے کسی مسلمان کو آزاد کیا، اللہ اس آزاد کردہ غلام کے ہر ایک عضو کے بدلے میں اس کے کسى ایک عضو کو آگ سے بچائے گا"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث يخبر أبو هريرة -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- بيّن فضل عتق الرقاب وتخليصها من الرق، وأن هذا من أجَلِّ الطاعات وأعظم القربات, ومن أسباب العتق من النار, إذا أعتق هذا الرقيق لله -تعالى-, فكان جزاؤه أن يعتقه الله من النار, لأن المجازاة تكون من جنس الأعمال, فجوزي المعتق للعبد بالعتق من النار, وهذا -والله أعلم- لكون الرقيق في حكم المعدوم إذ لا تصرف له في نفسه, وإنما يُتصرف فيه كما يُتصرف في الدابة, فكان عتقه كإخراجه من العدم إلى الوجود, لما في عتقه من تخليصه من ضرر الرق, وملك نفسه منافعه وتكميل أحكامه وتمكنه من التصرف في نفسه وشؤون حياته على حسب إرادته واختياره في حدود الشرع.
575;س حدیث میں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کر رہے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی غلام کو آزاد کرکے غلامی سے نجات دلانے کی فضیلت بیان کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا ہے کہ یہ ایک اہم ترین عبادت، اللہ کی نزدیکی حاصل کرنے کا عظیم ترین ذریعہ اور آگ سے نجات حاصل کرنے کا بڑا اہم سبب ہے۔ جب کوئی انسان کسی غلام کو آزاد کرتا ہے، تو اللہ کے یہاں اس کا صلہ یہ ہے کہ اللہ اسے آگ سے آزاد کر دے، کیونکہ اللہ بدلہ اسی نوع کا دیتا ہے، جس نوع کا عمل انسان کرتا ہے۔ غلام آزاد کرنے والے کو آگ سے آزاد اس لیے کیا جاتا ہے، کیونکہ غلام معدوم کے حکم میں ہوتا ہے۔ چنانچہ اسے اپنے بارے میں تصرف کا کوئی اختیار نہیں ہوتا اور اس کے بارے میں کچھ اسی طرح کا تصرف کیا جاتا ہے، جو جانوروں کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔ لہذا، اس کو غلامی سے نجات دلانا عدم سے وجود میں لانے کے مرادف ہے، کیونکہ آزادی کے بعد وہ غلامی کے ضرر سے محفوظ ہو جاتا ہے، اپنے منافع کا خود مالک بن جاتا ہے، احکام کی تکمیل کا اختیار حاصل کرلیتا ہے، اپنے نفس کے بارے میں تصرف کی قدرت پا لیتا ہے اور شریعت کے دائرے میں رہ کر اپنے ارادے اور اختیار کے مطابق زندگی گزارنے کا حق حاصل کر لیتا ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64703

 
 
Hadith   2090   الحديث
الأهمية: قول سفينة: كنت مملوكا لأم سلمة فقالت: أعتقك وأشترط  عليك أن تخدم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما عشت


Tema:

تم ایسے کام کرتے ہو جو تمہاری نظر میں بال سے زیادہ باریک ہیں (تم اسے حقیر سمجھتے ہو، بڑا گناہ نہیں سمجھتے ) جب کہ ہم لوگ رسول الله ﷺ کے زمانہ میں ان کاموں کو ہلاکت خیز کام شمار کرتے تھے۔

عن سفينة، قال: كنت مَمْلُوكًا لأم سلمة فقالت: أُعْتِقُكَ وأشترط عليك أن تخدم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما عِشْتَ فقلت: «وإن لم تَشْتَرِطِي عَلَيَّ، ما فَارَقْتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ما عِشْتُ فَأَعْتَقَتْنِي، واشْتَرَطَتْ عَلَيَّ».

چنانچہ یہ لوگ صحابہ رضی اللہ عنہم کی جماعت میں سے تھے جن کے جسم کسی عذر یا مرض کی وجہ سے مدینہ میں روک لئے گئے اور رسول اللہ ﷺ کے ساتھ اس عزوہ میں نہ نکل سکے، لیکن وہ اپنے دلوں اور عزم محکم کے ساتھ نکلے، چنانچہ وہ اپنی روحوں کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی ساتھ تھے اور اپنے وجود کے ساتھ دار الہجرت مدینہ میں۔ اور یہ قلبی جہاد کہلاتا ہے،

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث يخبر سفينة -رضي الله عنه- أنه كان مملوكاً لأم سلمة -رضي الله عنها- فأعتقته بشرط أن يخدم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- مدة حياته، فأخبرها أنه وإن لم تشترط ذلك فإنه لن يفارق النبي -صلى الله عليه وسلم- ما عاش، فأعتقته واشترطت عليه، فهذا فيه دليل على صحة الشرط في العتق.

 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64708

 
 
Hadith   2091   الحديث
الأهمية: المكاتب عبد ما بقي عليه من مكاتبته درهم


Tema:

اوربلاشبہ دستاویزوں کے جو مختلف فوائد ہیں وہ کسی سے مخفی نہیں ہیں،

عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «المُكَاتَبُ عَبْدٌ ما بَقِيَ عليه من مُكَاتَبَتِهِ دِرْهَمٌ».

عمرو بن شعیب اپنے والد سے، وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا کو ابوالعاص بن ربیع رضی اللہ عنہ کے پاس نئے نکاح کے ساتھ بھیج دیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في هذا الحديث بيان أنَّ المكاتب لا يعتق ويكون له حكم الأحرار حتى يؤدي ما عليه من مال الكتابة كاملًا، فإن بقي عليه شيء فهو عبد تجري عليه أحكام الرقيق.

 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64709

 
 
Hadith   2092   الحديث
الأهمية: لا يرث المسلم الكافر، ولا يرث الكافر المسلم


Tema:

مسلمان کافر کا وارث نہیں بنے گا اور نہ کافر مسلمان کا وارث بنے گا

وعن أسامة بن زيد -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «لا يرثُ المسلمُ الكافرَ، ولا يَرِثُ الكافرُ المسلمَ».

اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "مسلمان کافر کا وارث نہیں بنے گا اور نہ کافر مسلمان کا وارث بنے گا"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- بأنَّه لا توارث بين المسلم والكافر، ذلك أنَّ الإِسلام أقوى رابطة، فإذا اختل هذا الرباط المقدس بين القرابة في النسب، فقد فُقِدت الصلات والعلاقات، فاختلت قوة رابطة القرابة فمنَع التوارث، الذي بني على الموالاة والنصرة.
575;س حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ مسلمان اور کافر ایک دوسرے کے وارث نہیں ہو سکتے، کیونکہ اسلام کا رشتہ سب سے قوی اور مضبوط ترین رشتہ ہے۔ لہذا، اگر نسبی قرابت داروں کے بیچ یہ مقدس رشتہ مفقود ہو، تو سارے رشتے ناتے بے معنی ہو جاتے ہیں اور قرابت کے رشتے کی قوت غیر مؤثر ہو جاتی ہے، اس لیے ایک دوسرے کے وارث بننے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، جس کی بنیاد مدد اور باہمی تعاون پر رکھی گئی ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64716

 
 
Hadith   2093   الحديث
الأهمية: لا يتوارث أهل ملتين شتى


Tema:

دو الگ الگ ملتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے

عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «لا يَتَوَارَثُ أهل مِلَّتَيْنِ شتّى».

عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "دو الگ الگ ملتوں کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے"۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد الحديث أنه لا توارث بين كل قوم اختلفت ديانتهم، فلا يرث المسلم اليهودي أو النصراني، والعكس، وذلك لأنه اختل شرط من شروط التوارث وهو اتفاق الدين، فإذا اختلفت الأديان فلا توارث بينهما، وهذا قول الجمهور من الفقهاء.
575;س حدیث سے معلوم ہوا کہ دو الگ الگ ادیان کے لوگ ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ چنانچہ مسلمان یہودی یا عیسائی کا وارث نہیں بنے گا اور اسی طرح یہ لوگ مسلمان کے وارث نہیں بن سکتے، کیونکہ یہاں ایک دوسرے کے وارث بننے کی ایک شرط یعنی اتحاد دین، مفقود ہے۔ لہذا، جہاں بھی دین الگ ہوگا، وہاں وارث بننے اور بنانے کی بات نہیں آئے گی۔ یہی جمہور فقہا کا قول ہے۔
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64718

 
 
Hadith   2094;mso-yfti-lastrow:yes   الحديث
الأهمية: إذا استهل المولود ورث


Tema:

’’جب تم مدد طلب کرو، تو اللہ تعالیٰ سے طلب کرو‘‘

عن جابر -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا اسْتَهَلَّ المَوْلُودُ وَرِثَ».

Esin Hadith Test Urdu


عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ”رضاعت سے بھی وہ تمام رشتے حرام ہو جاتے ہیں، جو نسب کی وجہ سے حرام ہوتے ہیں“۔

دل الحديث على أنه إذا  استهل المولود أي إذا بكى عند ولادته أو عطس أو صاح ونحو ذلك، وهو كناية عن ولادته حيًّا، فإنه يستحق الميراث بذلك، لتحقق حياته، وهذا هو شرط  الميراث بالنسبة للوراث، والحديث دليل على أنه إذا استهل السقط ثبت له حكم غيره في أنه يرث، ويقاس عليه سائر الأحكام من الغسل والتكفين والصلاة عليه، ويلزم من قتله القود أو الدية.

 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64722






© EsinIslam.Com Designed & produced by The Awqaf London. Please pray for us