عن أنس -رضي الله عنه- أن النبي -صلى
الله عليه وسلم- قال: «جَاهِدُوا المشركين بأموالكم وأنفسكم وألسنتكم».
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ
نے فرمایا: ”مشرکین کے ساتھ اپنی جان، مال اور زبان کے ذریعے جہاد کرو۔“
Explicação Hadith بيان الحديث
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم-
المؤمنين بالجهاد الذي يكون تحت سلطة إمام، وتحت راية مؤمنة واحدة، ويكون
لإعلاء كلمة الله لا لأغراض دنيوية، ويكون بالآتي: المال:
وذلك بإنفاقه على شراء السلاح، وتجهيز الغزاة، ونحو ذلك. وأما
النفس: فبمباشرة القتال للقادر عليه، والمؤهل له، وهو الأصل في الجهاد،
كقوله -تعالى- :(وجاهدوا بأموالكم وأنفسكم). وأما
اللسان: فبالدعوة إلى دين الله -تعالى- ونشره، والذود عن الإسلام، ومجادلة
الملاحدة، والرد عليهم، وبث الدَّعوة بكل وسيلة من وسائل الإعلام، لإقامة
الحجة على المعاندين، وبالأصوات عند اللقاء والزجر ونحوه من كل ما فيه
نكاية للعدو (ولا ينالون من عدو نيلا إلا كتب لهم به عمل صالح)، وبالخطب
التي تحث على الجهاد، وبالأشعارفقد قال -صلى الله عليه وسلم- «اهجوا قريشا
فإنه أشد عليهم من رشق النبل» رواه مسلم.
606;بی ﷺ نے مؤمنوں کو جہاد کا حکم دیا ہے،
جو حاکم وقت کے زیر نگرانی اور ایک مؤمنانہ جھندے کے نیچے عمل میں آتا ہے۔
جہاد دنیوی مقاصد کے لیے نہیں، بلکہ اللہ کے کلمے کی سربلندی کے لیے درج
ذیل چیزوں کے ذریعہ کیا جائے گا: مال کے
ذریعے: اسے آلاتِ حرب کی خریداری اور غزوے کی تیاری وغیرہ میں خرچ کیا جائے
گا۔ جان کے
ذریعے: طاقت و قوت اور اہلیت رکھنے والے کے لیے بالمشافہ قتال کرنا۔ یہی
اصل جہاد ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿وَجَاهِدُوا
بِأَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ﴾”اور اپنے مالوں اورجانوں کے ذریعہ جہاد
کرو“۔ زبان کے
ذریعے :اللہ تعالیٰ کے دین کی طرف دعوت اوراس کی نشر واشاعت، اسلام کا
دفاع، ملحدین کے ساتھ مناظرہ، ان کی تردید اور دعوت کومختلف وسائلِ اعلام
کے ذریعے عام کرنا؛ تاکہ سرکش مخالفین پر حجت قائم ہو، ان سے مڈبھیڑ کے وقت
شور اور زجر وتوبیخ وغیرہ ہر وہ کام جس میں دشمنوں کی سرزنش ہو۔ فرمان
الٰہی ہے: ﴿وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَّيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُم
بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ﴾”اور دشمنوں کی (جنھوں نے بھی) جو کچھ خبر لی، ان سب
پر ان کے نام (ایک ایک) نیک کام لکھا گیا“. اور ایسےخطبات واشعار کے ذریعہ
جو جہاد پر ابھاریں۔ نبی ﷺ نے فرمایا: ” کفار قریش کی ہجو کیا کرو؛ کیوں کہ
یہ ہجو ان پر تیر مارنے سے زیادہ سخت ہے۔ “ اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ -- [صحیح]+ +[اسے امام
نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام
احمد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام دارمی نے روایت کیا ہے۔]
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64597
|
|
Hadith 2049 الحديث
الأهمية: قول عائشة: استأذنت النبي -صلى الله
عليه وسلم- في الجهاد، فقال: «جهادكن الحج»
Tema:
عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا یہ فرمان
کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے جہاد کی اجازت چاہی تو آپ ﷺنے فرمایا : ’’تم
عورتوں کا جہاد حج ہے" |
عن عائشة أم المؤمنين -رضي الله عنها-
قالت: استأذنت النبي -صلى الله عليه وسلم- في الجهاد، فقال: «جهادكن الحج».
اُم المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے
روایت ہے، وہ کہتی ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے جہاد کی اجازت چاہی، تو آپ
ﷺنے فرمایا : "تم عورتوں کا جہاد حج ہے"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
عن عائشة أم المؤمنين -رضي الله عنها-
أنها طلبت من النبي -صلى الله عليه وسلم- أن يأذن لها أن تجاهد معه طلبًا
لفضل الجهاد، فبين النبي -صلى الله عليه وسلم- أن مباشرة الجهاد وقتال
الأعداء ليست مشروعة في حق النساء؛ لما يتصفن به غالبًا من ضعف البدن،
ورِقة القلب، وعدم تحمل الأخطار، ولا يمنع ذلك قيامهن بعلاج الجرحى، وسقي
العطشى، ونحو ذلك من الأعمال. فقد جاء
في الصحيح من حديث أم عطية -رضي الله عنها- قالت: غزوت مع رسول -صلى الله
عليه وسلم- سبع غزوات، أخلفهم في رحالهم، فأصنع لهم الطعام، وأُداوي
الجرحى، وأقوم على المرضى. وقال بأن
جهادهن يكون في الحج، و تشبيه الحج والعمرة بالجهاد بجامع الأسفار، والبعد
عن الأوطان، ومفارقة الأهل، وخطر الأسفار، وتعب البدن، وبذل الأموال. وأخرج
مسلم من حديث أنس «أن أم سليم اتخذت خنجرًا يوم حنين وقالت للنبي -صلى الله
عليه وسلم-: اتخذته إن دنا مني أحد من المشركين بقرت بطنه» فهو يدل على
جواز القتال وإن كان فيه ما يدل على أنها لا تقاتل إلا مدافعة، وليس فيه
أنها تقصد العدو إلى صفه وطلب مبارزته.
575;م المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان
کرتی ہیں کہ انھوں نے جہاد کی فضیلت کے پیش نظر، اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ و سلم سے آپ کی معیت میں جہاد کرنے کی اجازت طلب کی، تو آپ نے واضح
انداز میں بتا دیا کہ جہاد اور دشمنوں سے جنگ کرنا عورتوں کے حق میں مشروع
نہیں ہے، کیونکہ عام طور سے عورتیں نازک اندام اور نرم دل ہوتی ہیں اور ان
کے اندر خطروں کو جھیلنے کی صلاحیت کم ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے
کہ عورتیں میدان جنگ میں زخمیوں کا علاج، پیاسوں کو پانی پلانا اور اس طرح
کے دوسرے کام بھی نہیں کر سکتیں، کیونکہ صحیح حدیث میں آیا ہے کہ ام عطیہ
رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ سات
غزوات میں شریک رہی۔ میں ان کے جانے کے بعد قیام گاہ میں رہتی، ان کے لیے
کھانا بناتی، زخمیوں کا علاج کرتی اور مریضوں کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے آگے فرمایا کہ ان کا جہاد حج میں ہوتا ہے۔ حج
اور عمرہ کو جہاد سے تشبیہ اس بنا پر دی گئی ہے کہ دونوں میں سفر کرنا پڑتا
ہے، وطن سے دور رہنا ہوتا ہے، اہل و عیال سے الگ رہنا پڑتا ہے، سفر کی
صعوبتیں جھیلنا پڑتی ہیں، تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہے اور مال خرچ کرنا پڑتا
ہے۔ امام مسلم
رحمہ اللہ نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا
نے حنین کے دن ایک خنجر اٹھایا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے کہا
کہ میں نے اسے اس لیے اٹھا رکھا ہے کہ اگر کسی مشرک نے میرے پاس آنے کی
کوشش کی، تو اس کا پیٹ چیر دوں گی۔ یہ حدیث عورت کے جنگ کرنے کی دلیل ہے،
اگرچہ اس میں اس بات کا اشارہ ہے کہ وہ صرف اپنے بچاو کے لیے لڑنا چاہتی
تھیں اور ان کا ارادہ دشمن کی صف میں گھس کر دو دو ہاتھ کرنے کا نہیں تھا۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64598
|
|
Hadith 2050 الحديث
الأهمية: ارجع إليهما فاستأذنهما، فإن أذنا لك
فجاهد، وإلا فبرهما
Tema:
واپس جاکر دونوں سے اجازت مانگو، اگر
دونوں اجازت دے دیں تو جہاد میں شریک ہو سکتے ہو، ورنہ ان کی بات مانو اور
ان کى خدمت میں لگے رہو |
عن أبي سعيد الخدري أن رجلًا هاجر إلى
رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من اليمن فقال: «هل لك أحَدٌ باليمن؟»،
قال: أَبَوَاي، قال: «أَذِنَا لك؟» قال: «لا»، قال: «ارْجِعْ إليهما
فاستأذِنْهُما، فإنْ أَذِنَا لَكَ فَجَاهِدْ، وإلا فَبِرَّهُمَا».
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ ایک آدمی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یمن سے ہجرت کرکے آیا،
تو آپ نے پوچھا: "کیا یمن میں تمھارا کوئی ہے؟" اس نے جواب دیا: میرے
والدین ہیں۔ پوچھا: "دونوں نے تمھیں اجازت دی ہے؟" جواب دیا: نہیں۔ فرمایا:
"واپس جاکر دونوں سے اجازت مانگو۔ اگر دونوں اجازت دے دیں، تو جہاد میں
شریک ہو سکتے ہو، ورنہ ان کی بات مانو اور ان کى خدمت میں لگے رہو"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
أفاد الحديث أن رجلًا جاء من اليمن
ليستأذن النبي -صلى الله عليه وسلم- للجهاد، فسأل عن والديه وهل استأذنهما
للذهاب للجهاد أم لا، فظهر من حاله أنه لم يستأذنهما، فأمره النبي -صلى
الله عليه وسلم- أن يرجع إليهما ويحسن إليهما ويبرهما، فدل الحديث على أن
إذن الوالدين في الجهاد أمر معتبر.
Explicação Hadith بيان الحديث
اس حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ ایک
آدمی یمن سے آیا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شریک ہونے
کی اجازت طلب کی، تو آپ نے اس کے والدین کے بارے میں پوچھا اور معلوم کیا
کہ آیا اس نے ان سے جہاد میں شریک ہونے کی اجازت لی ہے یا نہیں، تو پتہ چلا
کہ اس نے ان سے اجازت نہیں لی ہے۔ لہذا، آپ نے اسے حکم دیا کہ واپس جاکر ان
کے ساتھ حسن سلوک کرے, ان کى فرمانبرداری کرے اور ان کی خدمت میں لگا رہے۔
یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ جہاد میں والدین کی اجازت کا اعتبار ہے۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64599
|
|
Hadith 2051 الحديث
الأهمية: أنا بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر
المشركين
Tema:
میں ہر ایسے مسلمان سے بری ہوں، جو
مشرکوں کے بیچ رہتا ہو |
عن جرير بن عبد الله قال: بعث رسول الله
-صلى الله عليه وسلم- سَرِيَّةً إلى خَثْعَمٍ فاعٍتَصَمَ نَاسٌ منهم
بالسجود، فَأَسْرَعَ فيهم القَتْلُ قال: فَبَلَغَ ذلك النبيَّ -صلى الله
عليه وسلم- فَأَمَرَ لهم بنصف العَقْلِ وقال: «أنا بريء من كل مسلم يُقيم
بين أَظْهُرِ المشركين». قالوا: يا رسول الله لم؟ قال: «لا تَرَاءَى
نَارَاهُما».
جریر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں
کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خثعم قبیلے کی جانب ایک سریہ بھیجا۔
چنانچہ ان میں سے کچھ لوگ بچاو کے لیے سجدے میں گر پڑے، لیکن انھیں تیزی سے
قتل کر دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں کہ جب اس کی اطلاع اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کو ملی، تو ان کى آدھی دیت ادا کرنے کا حکم دیا اور فرمایا: "میں ہر
ایسے مسلمان سے بری ہوں، جو مشرکوں کے بیچ رہتا ہو"۔ صحابہ کرام رضی اللہ
عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! ایسا کیوں؟ تو فرمایا : "ان میں سے ایک کی آگ
دوسرے کو نہيں دکھنی چاہیے"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
أرسل النبي -صلى الله عليه وسلم- قطعة
من الجيش لجماعة من قبيلة خثعم لأنهم كانوا كفاراً، فجعل بعضهم يسجد ليدل
على أنه مسلم، إلا إن المسلمين سارعوا إلى قتلهم لظنهم أنهم مشركون،
ولبقائهم بين أظهر المشركين، فلما تيقن إسلامهم جعل النبي -عليه الصلاة
والسلام- ديتهم على النصف من دية المسلمين، ولم يجعلها كاملة؛ لأنهم كانوا
السبب في حصول هذا القتل، وحرم الشرع الإقامة في بلاد الكفار فلا يلتقي
المسلم بالكافر ولا تتقابل نارهما، بمعنى لا يكون قريبًا منه بحيث لو أوقد
أحدهما نارًا لرآه الآخر، للبراءة من الكفر وأهله.
575;للہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خثعم
قبیلے کی ایک حصے کی جانب، جو کافر تھا، لشکر کی ایک ٹکڑی بھیجی۔ یہ لوگ
وہاں پہنچے تو کچھ لوگ یہ ثابت کرنے کے لیے کہ وہ مسلم ہيں، سجدہ کرنے لگے۔
لیکن، چونکہ وہ مشرکوں کے ساتھ رہ رہے تھے، اس لیے مسلمانوں نے انھیں مشرک
سمجھ کر بنا وقت گنوائے قتل کر دیا۔ لیکن جب یہ یقین ہو گیا کہ وہ مسلمان
ہی تھے، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کى دیت عام مسلمانوں کى
دیت سے آدھی رکھى۔ پوری دیت ادا کرنے کے لیے اس لیے نہيں کہا کہ اس قتل کے
وقوع کا سبب وہ خود ہی تھے۔ شریعت نے کافروں کے علاقے میں رہنے کو حرام
قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ مسلمان کافر سے اتنا قریب نہ رہے کہ اگر ان میں
ایک آگ جلائے تو دوسرے کو دکھنے لگے۔ اس طرح کا حکم کفر اور اس کے
پیروکاروں سے براءت کے اظہار کی بنا پر دیا گیا ہے۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64600
|
|
Hadith 2052 الحديث
الأهمية: لا تنقطع الهجرة ما قوتل الكفار
Tema:
ہجرت کا سلسلہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا،
جب تک کافروں سے جنگ لڑی جاتی رہے گی |
عن عبد الله بن وقدان السعدي قال:
وَفَدْتُ إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في وفد كُلُّنَا يَطلبُ
حَاجة، وكنتُ آخرهم دُخُولاً على رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فقلتُ:
يا رسول الله، إني تَركتُ من خلفي وهم يَزْعُمُون أنَّ الهجرة قد انقطعت،
قال: «لا تنقطع الهجرة ما قُوتِلَ الكُفَّارُ».
عبد اللہ بن وقدان سعدی رضی اللہ عنہ
کہتے ہیں کہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس ایک وفد کے ساتھ
آیا۔ ہم میں سے ہر شخص آپ سے کچھ پوچھنے کی ضرورت محسوس کر رہا تھا۔ میں سب
سے آخر میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے سامنے حاضر ہوا اور عرض
کیا : اے اللہ کے رسول! میں اپنے پیچھے ایسے لوگوں کو چھوڑ آیا ہوں، جو
سمجھتے ہیں کہ ہجرت کا سلسلہ اب بند ہو چکا ہے۔ آپ نے جواب دیا: "ہجرت کا
سلسلہ اس وقت تک بند نہیں ہوگا، جب تک کافروں سے جنگ لڑی جاتی رہے گی"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
جاء هذا الصحابي الكريم في جماعة من
قومه يطلبون حاجات، وكان هو آخر من دخل على رسول الله -صلى الله عليه
وسلم-، فكان من أسئلته أن قومًا خلفه يقولون إن الهجرة قد انقطعت، فأخبره
-عليه الصلاة والسلام- بأن الهجرة من دار الكفر إلى دار الإسلام لا تنقطع
ولا تتوقف ما دام المسلمون يقاتلون الكفار، ولكن الهجرة من مكة إلى المدينة
انقطعت؛ لحديث (لا هجرة بعد الفتح) متفق عليه.
605;عزز صحابی عبد اللہ بن وقدان سعدی رضی
اللہ عنہ اپنے یہاں کے کچھ لوگوں کے ساتھ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم
کے پاس آئے۔ ان میں سے ہر شخص آپ سے کچھ نہ کچھ پوچھنا چاہتا تھا۔ وہ آپ کے
سامنے سب سے آخر میں حاضر ہوئے اور انھوں نے جو سوال پوچھے، ان میں سے ایک
یہ تھا کہ ان کے پیچھے رہ جانے والے لوگوں میں سے کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ
اب ہجرت کا سلسلہ بند ہو چکا ہے۔ اس کا جواب اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و
سلم نے یہ دیا کہ دارالکفر سے دارالاسلام کی جانب ہجرت کا سلسلہ اس وقت تک
بند نہیں ہوگا، جب تک مسلمانوں اور کافروں کے بیچ جنگ جاری رہے گی۔ یہ اور
بات ہے کہ مکہ سے مدینہ کی جانب ہجرت بند ہو چکی ہے، کیونکہ ایک دوسری حدیث
میں ہے : "لا هجرة بعد الفتح" یعنی فتح مکہ کے بعد مکہ سے مدینہ کی جانب
ہجرت نہیں رہی (متفق علیہ)۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64601
|
|
Hadith 2053 الحديث
الأهمية: قول علي بن أبي طالب -رضي الله عنه-:
أنا أول من يجثو بين يدي الرحمن للخصومة يوم القيامة
Tema:
علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کا قول کہ
میں پہلا آدمی ہوں گا، جو قیامت کے دن رحمن کے سامنے جھگڑنے کے لیے گھٹنوں
پر بیٹھے گا |
عن علي بن أبي طالب -رضي الله عنه- أنه
قال: «أنا أَوَّلُ من يَجْثُو بين يَدَيِ الرحمن للخُصُومة يوم القيامة»
وقال قيس بن عباد: وفيهم أُنْزِلَتْ : {هذان خصمان اخْتَصَمُوا في ربهم}
[الحج: 19] قال: "هم الذين تَبَارَزُوا يوم بَدْرٍ: حمزة، وعلي،
وَعُبَيْدَةُ، أو أبو عبيدة بن الحارث، وَشَيْبَةُ بن رَبِيعَةَ، وعتبة بن
رَبِيعَةَ، والوليد بن عُتْبَةُ".
علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے، وہ کہتے ہیں: "میں پہلا آدمی ہوں گا، جو قیامت کے دن رحمن کے سامنے
جھگڑنے کے لیے گھٹنوں پر بیٹھے گا"۔ قیس بن عباد کہتے ہیں: انہی لوگوں کے
بارے میں یہ آیت نازل ہوئی تھی : {هذان خصمان اخْتَصَمُوا في ربهم} [الحج:
19] (یہ دو فریق ہیں، جو اپنے رب کے بارے میں اختلاف کر رہے ہیں)۔ وہ کہتے
ہیں: یہی لوگہیں جو بدر کے دن جنگ سے پہلے مقابلہ آرائی کے لیے سامنے آئے
تھے۔ یعنی حمزہ، علی، عبیدہ یا ابو عبیدہ بن حارث، شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن
ربیعہ اور ولید بن عتبہ۔
Explicação Hadith بيان الحديث
أفاد هذا الأثر عن علي -رضي الله عنه-
أنه أخبر عن نفسه بأنه أول من يجلس على ركبتيه يوم القيامة للخصومة بين يدي
رب العالمين، وأن هذه الآية (هذان خصمان اختصموا في ربهم) نزلت فيه وفي
حمزة وأبي عبيدة -رضي الله عنهم-، لما بارزوا رؤوس الكفر يوم غزوة بدر وهم
شيبة بن ربيعة وعتبة بن ربيعة والوليد بن عتبة، فدل ذلك على جواز المبارزة
والمبارزة -المقاتلة بالسيوف بين اثنين قبل المعركة- قبل بدء المعركة.
575;س اثر سے یہ معلوم ہوا کہ علی رضی اللہ
عنہ نے اپنے بارے میں یہ بتایا ہے کہ وہ پہلے شخص ہوں گے، جو قیامت کے دن
اللہ رب العالمین کے سامنے جھگڑنے کے لیے گھٹنوں پر بیٹھیں گے۔ ساتھ ہی یہ
کہ آیت کریمہ {هذان خصمان اختصموا في ربهم} ان کے نیز حمزہ اور ابو عبیدہ
رضی اللہ عنہم کے بارے میں نازل ہوئی تھی، جب وہ غزوۂ بدر کے موقعے پر کفر
کے سرغنوں یعنی شیبہ بن ربیعہ، عتبہ بن ربیعہ اور ولید بن عتبہ سے مقابلے
کے لیے سامنے آئے تھے۔ یہ اثر مبارزت یعنی معرکہ شروع ہونے سے پہلے دو
لوگوں کے بیچ تلوار کی جنگ کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64607
|
|
Hadith 2054 الحديث
الأهمية: أصبنا طعامًا يوم خيبر، فكان الرجل يجيء
فيأخذ منه مقدار ما يكفيه، ثم ينصرف
Tema:
ہمیں خیبر کے دن کھانے کی کچھ چیزیں
حاصل ہوئیں، تو لوگ آتے اور اس میں سے اتنا لے کر چلے جاتے، جو ان کے لیے
کافی ہو |
عن عبد الله بن أبي أوفى قال: قلت: "هل
كنتم تُخَمِّسُون -يعني الطعام- في عهد رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟
فقال: «أصبنا طعامًا يوم خَيبر، فكان الرجلُ يَجيء فَيَأخذُ مِنه مِقدارَ
ما يَكفيه، ثم يَنْصَرِف».
عبد اللہ بن ابو اوفی سے روایت ہے کہ ان
سے (محمد بن ابو مجالد کے ذریعے) پوچھا گیا : کیا آپ لوگ اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کھانے کی چیزوں کا پانچواں حصہ نکالتے تھے؟ تو
انھوں نے جواب دیا : ہمیں خیبر کے دن کھانے کی چیزیں حاصل ہوئیں، تو لوگ
آتے اور اس میں سے اتنا لے کر چلے جاتے، جو ان کے لیے کافی ہو"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
دل الحديث على أن المجاهد إذا احتاج إلى
الأكل مما جمع من طعام الغنائم فله ذلك, دون أن يدّخِره, بل يأكل منه حاجته
دون زيادة ثم ينصرف, أما ادخاره فهذا غلول, لكن الأكل منه بقدر الحاجة ليس
بغلول, وإنما نُهي عن الأخذ من الغنيمة بحيث ينفرد به عن إخوانه المجاهدين,
أما ما يشاركه فيه غيره من الطعام والفاكهة فلا حرج فيه.
740;ہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ اگر
مجاہد کو کھانے کی ضرورت ہو، تو وہ مال غنیمت میں حاصل شدہ کھانے کی چیزوں
میں سے بقدر ضرورت کھا سکتا ہے، لیکن ذخیرہ نہیں کر سکتا۔ کیونکہ یہ مال
غنیمت کے اندر خیانت میں شمار ہوگا۔ یہاں یہ یاد رہے کہ غنیمت کا مال تقسیم
سے پہلے لینے سے اس وقت منع کیا گیا ہے، جب دوسرے مجاہد بھائیوں کا حق مار
کر لے لیا جائے، لیکن اگر کھانا اور پھل وغیرہ سب لوگ بقدر ضرورت استعمال
کے لیے لیں، تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64622
|
|
Hadith 2055 الحديث
الأهمية: يد المسلمين على من سواهم، تتكافأ
دماؤهم وأموالهم، ويجير على المسلمين أدناهم، ويرد على المسلمين أقصاهم
Tema:
مسلمان دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ایک
ہاتھ کی طرح ہیں، ان کا خون اور ان کا مال برابر ہے، ان کے کسی ادنی انسان
کی دی ہوئی امان بھی اس لائق ہوتی ہے کہ سارے مسلمان اس کا احترام کریں اور
مسلمانوں کى اور مال غنیمت ان میں کا سب سےدور شخص بھى لوٹاتا ہے |
عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده قال:
قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «يَدُ المسلمين على مَن سِواهم،
تَتَكافَأُ دِماؤهم وأموالُهم، ويُجِيرُ على المسلمين أدْناهم، ويَرُدُّ
على المسلمين أَقْصَاهم».
عمرو بن شعیب اپنے والد سے, وہ اپنے
دادا سے روایت نقل کرتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
: "مسلمان دوسرے لوگوں کے مقابلے میں ایک ہاتھ کی طرح ہیں، ان کا خون اور
ان کا مال برابر ہے، ان کے کسی ادنی انسان کی دی ہوئی امان بھی اس لائق
ہوتی ہے کہ سارے مسلمان اس کا احترام کریں اور مسلمانوں کى اور مال غنیمت
ان میں کا سب سےدور شخص بھى لوٹاتا ہے"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
دل الحديث على أن كلمة المسلمين يجب أن
تكون واحدة، وأمرهم ضد أعدائهم واحد، فلا يتفرقون ولا يتخاذلون، وإنما هم
عصبة واحدة، وأمرهم واحد على الأعداء؛ قال -تعالى-: (وَاعْتَصِمُوا
بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا)، وقال -تعالى-: (لَا
تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ). كما أنَّ دماء المؤمنين
والمسلمين تتساوى في الدية والقصاص، فليس أحد أفضل من أحد، لا في الأنساب،
ولا في الأعراق، ولا في المذاهب، فهم أمام هذا الحق والواجب سواء، وفيه
أيضا أنَّ المسلم الواحد إذا أمَّن كافرًا صار أمانه ساريًا على عموم
المسلمين، فيجب احترام أمانه، ولا يحل هتك عهده وعقده. وفي
الحديث أيضا أن السرية إذا غنمت بقوة الجيش كانت الغنيمة لهم وللقاصي من
الجيش, إذ بقوته غنموها, وأن ما صار في بيت المال من الفيء فهو لقاصيهم
ودانيهم، وإن كان سبب أخذه دانيهم.
740;ہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ
مسلمانوں کے اندر مکمل اتحاد و اتفاق رہنا چاہیے اور دشمن کے مقابلے میں
انھیں ایک جان کی طرح کھڑا ہونا چاہیے۔ ان کے اندر انتشار اور آپسی پھوٹ کی
بجائے اس قدر ہم آہنگی اور آپسی محبت ہو کہ وہ سچ مچ ایک ہی جماعت کی طرح
دکھیں۔ اللہ تعالی نے فرمایا : {وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا
وَلَا تَفَرَّقُوا} (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور گروہ بندیوں کا
شکار نہ بنو) ایک اور جگہ فرمایا : {لَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا
وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ} (آپس میں جھگڑو نہیں، ورنہ تم کمزور ہو جاو گے اور
تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی)۔ اسی طرح تمام مسلمانوں کا خون دیت اور قصاص کے
معاملے میں بھی برابر ہے۔ کوئی کسی سے افضل نہیں ہے۔ نہ نسب کی بنیاد پر،
نہ رنگ و نسل کی بنیاد پر اور نہ مسلک کی بنیاد پر۔ سارے لوگ اس حق اور
واجب کے سامنے برابر ہیں۔ اس حدیث میں اس بات کا بھی ذکر ہے کہ کسی ایک
مسلمان نے بھی جب کسی کافر کو امان دے دی، تو اس کی دی ہوئی امان سارے
مسلمانوں کے لیے واجب التسلیم ہو گى، اس لیے اس کا احترام ضروری ہے اور اس
کے عہد کی خلاف ورزی جائز نہیں ہے۔ ساتھ ہی
اس بات کا بھی ذکر ہے کہ کسی سریے کو لشکر کی قوت کی بنا پر جو مال غنیمت
حاصل ہو، وہ اس سریے میں شامل لوگوں کو بھی ملے گا اور فوج کے ان لوگوں کو
بھی جو وہاں سے دور موجود ہوں، کیوں کہ یہ مال غنیمت فوج کی طاقت کی بنا پر
حاصل ہوا ہے اور بیت المال میں جو فے کا مال آئے وہ یکساں طور پر قریب کے
فوجیوں کے لیے بھی ہے اور دور کے فوجیوں کے لیے بھی، اگر چہ اسے حاصل کرنے
میں قریب کے فوجیوں کی ہی تگ ودو شامل ہو۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64624
|
|
Hadith 2056 الحديث
الأهمية: لأخرجن اليهود، والنصارى من جزيرة العرب
حتى لا أدع إلا مسلمًا
Tema:
میں ضرور یہودیوں اور نصرانیوں کو جزیرۂ
عرب سے نکال دوں گا، یہاں تک کہ مسلمان کے سوا کسی کو نہيں چھوڑوں گا |
عن عمر بن الخطاب أنه سمع رسول الله
-صلى الله عليه وسلم- يقول: «لأُخْرِجَنَّ اليهودَ والنصارى مِن جَزِيرة
العرب حتى لا أدَعَ إلا مُسلما».
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہ انھوں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو کہتے ہوئے سنا ہے: "میں
ضرور یہودیوں اور نصرانیوں کو جزیرۂ عرب سے نکال دوں گا، یہاں تک کہ مسلمان
کے سوا کسی کو نہيں چھوڑوں گا"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
يخبر عمر -رضي الله عنه- عن عزم النبي
-صلى الله عليه وسلم- على إخراج اليهود والنصارى من جزيرة العرب, لئلا
يجتمع فيها دينان, ولتبقى الجزيرة عامرة بالتوحيد, ليس فيها مَعْلَمٌ من
معالم الشرك, لأنّ مجاورةَ الكفار، ومعاشرتهم شرٌّ، وتجر إلى شرور كبيرة،
من خشية التشبه بهم، واستحسان عقائدهم، والرغبة في تقليدهم، من بسطاء
المسلمين، وقليلي الإدراك منهم, فيجب تميز المسلمين، واستقلالهم في بلادهم،
وبُعدهم عن مخالطة غيرهم، ممن يخالفهم في العقيدة، لذا يجب إخراج اليهود
والنصارى والمجوس وسائر أصحاب الملل من الكفار من جزيرة العرب, فجزيرة
العرب خاصة بهم، والعرب هم أصحاب الرسالة المحمَّدية، وبلادهم هي مهبط
الوحي، فلا يصح بحال من الأحوال أن يقيم فيها غير المسلمين.
593;مر بن خطاب رضی اللہ عنہ بتا رہے ہيں
کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودیوں اور نصرانیوں کو جزیرۂ عرب
سے نکال باہر کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا، تاکہ اس کے اندر ایک سے زیادہ دین
کا وجود نہ رہے، پورا جزیرۂ عرب توحید سے آباد رہے اور اس میں شرک کی کوئی
نشانی باقی نہ رہے۔ دراصل کافروں کے پڑوس میں اور ان کے ساتھ رہنا بری چيز
ہے اور یہ بہت سی برائیوں کا سبب بنتا ہے۔ اس سے اس بات کا ڈر رہتا ہے کہ
کہیں سیدھے سادے اور کم علم و فہم والے مسلمان ان کی مشابہت اختیار کرنے نہ
لگیں، ان کے عقائد کو بہتر سمجھنے نہ لگیں اور ان کی تقلید کرنے کی جانب
راغب نہ ہو جائیں۔ اس لیے مسلمانوں کا الگ رہنا، اپنے ملک اور شہر میں بود
و باش اختیار کرنا اور الگ عقیدے کے حامل لوگوں کے بیچ رہنے سے بچنا ضروری
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہودی، نصرانی اور مجوسی وغیرہ تمام کافر ملتوں کو جزیرۂ
عرب سے نکالنا ضروری ہے، کیونکہ جزیرۂ عرب، جہاں اللہ کے رسول صلی اللہ
علیہ وسلم پر وحی اترا کرتی تھی، مسلمانوں کے لیے خاص ہے اور کسی بھی صورت
میں اس کے اندر کسی غیر مسلم کا رہنا صحیح نہیں ہے۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64625
|
|
Hadith 2057 الحديث
الأهمية: أن النبي -صلى الله عليه وسلم- بعث خالد
بن الوليد إلى أكيدر دومة فأخذ فأتوه به، فحقن له دمه وصالحه على الجزية
Tema:
نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے خالد بن
ولید کو دومۃ الجندل کے حکمراں اکیدر کی جانب بھیجا۔ وہ ان کو گرفتار کر کے
آپ کے پاس لائے تو آپ نے اس کے خون کو تحفظ فراہم کیا اور اس سے جزیہ پر
مصالحت کر لی |
عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- وعن
عثمان بن أبي سليمان -رضي الله عنه- «أن النبي -صلى الله عليه وسلم- بعث
خالد بن الوليد إلى
أُكَيْدِرِ دُومَةَ؛ فأُخِذ فأتوه به، فَحَقَنَ له دَمَهُ وصَالَحَه على
الجِزْيَة».
انس بن مالک رضی اللہ عنہ اور عثمان بن
ابو سلیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد بن
ولید رضی اللہ عنہ کو دومۃ الجندل کے حکمراں اکیدر کی جانب بھیجا۔ وہ ان کو
گرفتار کر کے آپ کے پاس لائے تو آپ نے اس کے خون کو تحفظ فراہم کیا اور اس
سے جزیہ پر مصالحت کر لی۔
Explicação Hadith بيان الحديث
بعث النَّبي -صلى الله عليه وسلم- خالد
بن الوليد من تبوك في سرية لما كان هناك في أيام الغزوة إلى أكيدر، فأسره
وفتح حصنه، وعاد به إلى المدينة، فردَّه النَّبي -صلى الله عليه وسلم- إلى
بلاده، وضرب عليه الجزية، مع كونه من العرب، ولم يكرهه على الإسلام.
606;بی صلی اللہ علیہ و سلم نے تبوک سے,
وہاں غزوہ کے دونوں میں اپنى موجودگى کے دوران, خالد بن ولید رضی اللہ عنہ
کو ایک سریہ کے ساتھ اکیدر کی جانب بھیجا۔ تو خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے
اسے گرفتار کر لیا اور اس کے قلعے کو فتح کر لیا نیز اسے لے کر مدینہ
پہنچے، لیکن رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور
نہیں کیا، بلکہ اس پر جزیہ نافذ کرکے اسے اس کے وطن واپس کر دیا، حالانکہ
وہ اہل عرب میں سے تھا۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64631
|
|
Hadith 2058 الحديث
الأهمية: قول معاذ بن جبل: بعثني النبي -صلى الله
عليه وسلم- إلى اليمن، فأمرني أن آخذ من كل ثلاثين بقرة تبيعا أو تبيعة،
ومن كل أربعين مسنة، ومن كل حالم دينارًا، أو عدله معافر
Tema:
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا قول: نبی
صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے یمن بھیجا اور حکم دیا کہ ہر تیس گائے میں ایک
سال کا ايك بچھڑا یا ایک سال کی ايك بچھیا اور ہر چالیس گائے میں دو سال کی
ايك بچھیا اور ہر بالغ کی جانب سے ایک دینار یا اس کی قیمت کے برابر معافری
کپڑا لے لیا کروں |
عن معاذ بن جبل -رضي الله عنه- قال:
«بعثني النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى اليمن، فأمرني أن آخذ من كل ثلاثين
بقرة تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، ومن كل أربعين مُسنة، ومن كل حَالِم
دينارًا، أو عَدْلَهُ مَعَافِرَ».
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے، وہ کہتے ہیں: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے مجھے یمن بھیجا
اور حکم دیا کہ ہر تیس گائے میں ایک سال کا ايك بچھڑا یا ایک سال کی ايك
بچھیا اور ہر چالیس گائے میں دو سال کی ايك بچھیا اور ہر بالغ کی جانب سے
ایک دینار یا اس کی قیمت کے برابر معافری کپڑا لے لیا کروں۔
Explicação Hadith بيان الحديث
عن معاذ أن النبي -صلى الله عليه وسلم-
لما أرسله أميرًا إلى اليمن وعاملًا على الزكاة وغيرها، أمره أن يأخذ زكاة
البقر من كل ثلاثين بقرة تبيعًا أو تبيعةً، وهو ما له سنة، ومن كل أربعين
مسنةً يعني أو مُسِنًّا، وهو ما له سنتان. وقدر
الجزية بالدينار من الذهب على كل بالغ وظاهر إطلاقه سواء كان غنيًّا أو
فقيرًا، والمراد أنه يؤخذ الدينار منهم في السنة. لكن
الجزية يرجع في تقديرها إلى اجتهاد الإمام، فإنَّها تختلف حسب اختلاف
المكان والزمان، والغنى والفقر، والدليل على ذلك أنَّ النَّبيَّ -صلى الله
عليه وسلم- هو الذي قدرها على أهل اليمن، فقال لمعاذ: "خذ من كل حالم
دينارًا"، بينما زادت الجزية في تقدير عمر حينما قدرها على أهل الشام.
605;عاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے
کہرسول صلی اللہ علیہ و سلم نے جب ان کو امیر اور زکوۃ کے عامل کی حیثیت سے
یمن بھیجا، تو حکم دیا کہ گائے کی زکوۃ میں ہر تیس گایوں پر ایک سال کا ايك
بچھڑا یا ایک سال کی ايك بچھیا اور ہر چالیس گائے میں دو سال کی ايك بچھیا
لیا جائے- اور آپ كا مقصود تھا کہ دو سال کا بچھڑا بھى لیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح
جزیہ کی تعیین کرتے ہوئے فرمایا کہ ہر بالغ شخص کی جانب سے سونے کا ایک
دینار لیا جائے۔ اس کے اطلاق کے ظاہر سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک دینار امیر
اور غریب سب کے لیے ہے۔ مطلب یہ ہے کہ ان سے سال میں ایک دینار لیا جائے
گا۔ لیکن اس
بات کا دھیان رہے کہ جزیہ کی تعیین کا معاملہ حاکم وقت کے اجتہاد پر موقوف
ہے، کیونکہ وہ زمان و مکان اور امیری و غریبی کے اعتبار سے بدلتا رہتا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کہ خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کا
جزیہ متعین کرتے ہوئے معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہر بالغ شخص سے ایک
دینار لو، لیکن جب عمر رضی اللہ عنہ نے اہل شام پر جزیہ نافذ کیا، تو کچھ
بڑھاکر لاگو کیا۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64632
|
|
Hadith 2059 الحديث
الأهمية: الإسلام يعلو ولا يعلى
Tema:
اسلام سر بلند رہتا ہے اور مغلوب نہیں
ہوتا |
عن عائذ بن عمرو المزني -رضي الله عنه-
عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «الإسلام يَعْلُو ولا يُعْلَى».
عائذ بن عمرو مزنی رضی اللہ عنہ سے
روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "اسلام سر بلند
رہتا ہے اور مغلوب نہیں ہوتا"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
هذا الحديث قاعدة عظيمة من قواعد
الإسلام، وهي أن هذا الدين قد كتب الله له الرفعة والعلو، وأن أهله لا
يزالون في علو ومكانة حسنة ما داموا متمسكين به، فهذا شرط ذلك، وهو خبر
بمعنى الأمر، كما قال -تعالى-: (ولا تهنوا ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن
كنتم مؤمنين)، والحديث عام في جميع الأحوال، ويستدل به الفقهاء في فروع
ومسائل كثيرة، ومنها باب الجزية، فإن أهل الذمة إذا دفعوا الجزية وكانوا
بين أظهرنا فإنهم لا يُمكنون من إظهار نواقيسهم وصلبانهم ولا تعلو بنيانهم
بنيان المسلمين، وإذا أسلم أحد الزوجين تبع الولد خير أبويه دينًا وهو من
كان مسلمًا، ولا تزوج المسلمة للكافر، وهكذا كل حكم ترتب عليه علو شأن
الإسلام فهو المقدم.
575;س حدیث میں اسلام کا ایک عظیم ترین
قاعدہ بتایا گيا ہے۔ وہ قاعدہ یہ ہے کہ اللہ نے اسلام کے لیے رفعت و
سربلندی لکھ دی ہے اور اس کے ماننے والے اس وقت تک سربلند اور اچھی حالت
میں رہیں گے، جب تک اسلام کو مضبوطی سے تھامے رہیں گے۔ اس طرح، سربلندی کے
لیے اسلام کو مضبوطی سے تھامے رکھنا شرط ہے۔ حدیث کا یہ جملہ اگر چہ خبریہ
ہے، لیکن ہے امر کے معنی میں، جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے: {ولا تهنوا
ولا تحزنوا وأنتم الأعلون إن كنتم مؤمنين} (تم نہ کمزور پڑو اور نہ غمگين
ہو۔ تم ہی غالب رہوگے اگر ایمان دار ہو)۔ یہ حدیث تمام احوال کے لیے عام ہے
اور فقہا نے اس سے بہت سے مسائل اور فروعات میں استدلال کیا ہے۔ اس کی ایک
مثال جزیہ کا باب ہے، کیونکہ ذمی جب جزیہ ادا کرکے ہمارے بیچ رہیں گے، تو
انھیں کھلم کھلا ناقوس بجانے اور صلیب قائم کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ
ان کى عمارتیں مسلمانوں کى عمارتوں سے اونچى بنائی جائیں گى۔ اس کی دوسری
مثال یہ ہے کہ اگر غیر مسلم والدین میں سے کوئی ایک مسلمان ہو جائے، تو بچہ
دونوں میں سے جو بہتر دین کا حامل ہو یعنی مسلمان کے تابع ہوگا۔ اسی طرح
کسی مسلمان عورت کا نکاح کافر سے نہيں ہو سکتا۔ علی ہذا القیاس، ہر وہ حکم
جس سے اسلام کی سر بلندی جھلکتی ہو، وہی مقدم ہوگا۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64633
|
|
Hadith 2060 الحديث
الأهمية: من قتل معاهدًا لم يَرَحْ رائحة الجنة،
وإن ريحها توجد من مسيرة أربعين عامًا
Tema:
جس نے کسی معاہد کو قتل کیا، وہ جنت کی
بو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی بو چالیس سال کی مسافت کے برابر دوری سے
محسوس کی جاتی ہے |
عن عبد الله بن عمرو -رضي الله عنهما-
عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «من قَتَلَ مُعَاهَدًا لم يَرَحْ
رَائحَةَ الجنة، وإن رِيْحَهَا تُوجَدُ من مَسِيرَة أربعين عامًا».
عبد اللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہما
سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : "جس نے کسی
معاہد کو قتل کیا، وہ جنت کی بو تک نہیں پائے گا، جب کہ اس کی بو چالیس سال
کی مسافت کے برابر کی دوری سے محسوس کی جاتی ہے"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
أفاد الحديث أن من قتل معاهدًا بغير حق،
والمعاهد هو من دخل أرض الإسلام بعهد وأمان، أو كان من أهل الذمة، من
الكفار، لم يمكنه الله من دخول الجنة، وإن ريحها ليوجد من مسيرة أربعين
سنة، وهذا دلالة على بعده عنها، وهو يفيد حرص الإسلام على الحفاظ على
الدماء المعصومة من المعاهدين والذميين، وأن قتلهم بغير حق من كبائر
الذنوب.
575;س حدیث سے معلوم ہوا کہ جس نے کسی
معاہد یعنی اسلامی سرزمین میں کسی عہد و امان کے ساتھ داخل ہونے والے شخص
یا کسی ذمی کافر کا ناحق قتل کر دیا، وہ جنت کی بو تک نہیں پائے گا، جب کہ
اس کی بو چالیس سال کی مسافت کے برابر کی دوری سے محسوس کی جاتی ہے۔ یہ
حدیث اس بات کا احساس دلاتی ہے کہ اس طرح کا آدمی جنت سے کتنا دور ہوگا۔ اس
سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اسلام معاہدین اور ذمیوں کے خون کے تحفظ کا کس
قدر حریص ہے اور ساتھ ہی یہ کہ ان کا ناحق قتل کبیرہ گناہ ہے۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64637
|
|
Hadith 2061 الحديث
الأهمية: لا سَبَق إلا في خف أو في حافر أو نصل
Tema:
انعام کے ساتھ مسابقہ صرف اونٹ دوڑ یا
گھوڑ دوڑ یا تیر اندازی میں جائز ہے |
عن أبي هريرة قال: قال رسول الله -صلى
الله عليه وسلم-: «لا سَبَقَ إلا في خُفٍّ أو في حَافِرٍ أو نَصْلٍ».
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "انعام کے ساتھ مسابقہ صرف
اونٹ دوڑ یا گھوڑ دوڑ یا تیر اندازی میں جائز ہے"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
أفاد الحديث أن الجعل وهو العوض من مال
ونحو ذلك لا يُستحقّ إلا في سباق الخيل والإبل وما في معناهما، وفي النصل،
وهو الرمي، وذلك لأن هذه الامور عُدّة في قتال العدوّ، وفي بذل الْجُعْل
عليها ترغيبٌ في الجهاد، وتحريض عليه، ويدخل في معنى الخيل البغال والحمير؛
لأنها كلها ذوات حوافر، وقد يُحتاج إلى سُرعة سيرها؛ لأنها تحمل أثقال
العساكر، وتكون معها في المغازي، ويدخل في الحديث كل ما في معنى ما ذُكر من
آلات حربية ونحو ذلك.
575;س حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ مالی یا
کسی اور طرح کا انعام لینا صرف اونٹ دوڑ،گھوڑ دوڑ اور ان کے معنی میں آنے
والے مقابلوں اور تیر اندازی میں ہی صحیح ہے۔ وجہ یہ ہے کہ یہ تینوں مقابلے
دشمن سے جنگ کی تیاری میں شامل ہیں اور ان کے لیے انعام رکھنے سے جہاد کی
ترغیب ملتی ہے۔ واضح رہے کہ گھوڑے کے معنی میں خچر اور گدھے بھی شامل ہيں،
کیونکہ یہ بھی کھر والے ہیں اور کبھی کبھی ان کی تیز چال کی بھی ضرورت رہتی
ہے، کیونکہ یہ لشکر کے بوجھ اٹھاتے ہیں اور جنگی اسفار میں فوج کے ساتھ
رہتے ہیں۔ اس حدیث کے تحت وہ سارے جنگی آلات بھی داخل ہوں گے، جو مذکورہ
چیزوں کے معنی میں شامل ہوں۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64640
|
|
Hadith 2062 الحديث
الأهمية: ألا إن القوة الرمي، ألا إن القوة
الرمي، ألا إن القوة الرمي
Tema:
سن لو! قوت تیر اندازی ہے۔ سن لو! قوت
تیر اندازی ہے۔ سن لو! قوت تیر اندازی ہے |
عن عقبة بن عامر قال: سمعت رسول الله
-صلى الله عليه وسلم- وهو على المنبر، يقول: "{وأعدوا لهم ما استطعتم من
قوة} [الأنفال: 60]، ألا إن القُوَّةَ الرَّميُ، ألا إن القوة الرمي، ألا
إن القوة الرمي".
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ
میں نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر کھڑے ہوکر کہتے ہوئے
سنا ہے:" {وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة} [سورہ الأنفال: 60] (تم ان کے
مقابلے میں طاقت بھر قوت کی تیاری کرو), سن لو! قوت تیر اندازی ہے۔ سن لو!
قوت تیر اندازی ہے۔ سن لو! قوت تیر اندازی ہے"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
أفاد الحديث تفسير النبي -صلى الله عليه
وسلم- للقوة المأمور باتخاذها في مجابهة الأعداء والكفرة، وهي الرمي؛ لأنه
أنكى، وأبعد عن خطر العدو، وكان الرمي وقت نزول الآية الكريمة بالسهام،
ولكن الآية بإعجازها أطلقت القوة؛ لتكون قوة كل زمان ومكان، وكذلك الحديث
الشريف جاء إعجازه العلمي بإطلاق الرمي، الذي يشتمل الرمي بأنواعه، وأن
يفسر بكل رمي يتجدد وبأي سلاح يحدث.
575;س حدیث میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے اس قوت کی تفسیر بیان کی ہے، جسے دشمنوں اور کافروں کے مقابلے کی
خاطر تیار رکھنے کا حکم دیا گيا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ اس قوت سے مراد تیر
اندازی ہے، کیونکہ یہ دشمن پر زیادہ کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ اس کے
خطرے سے کہیں زیادہ محفوظ بھی رکھتی ہے۔ حدیث میں "الرمي" یعنی پھینکنے اور
چلانے کا لفظ آیا ہے اور جس وقت یہ آیت اتری تھی، اس وقت میدان جنگ میں تیر
چلائے جاتے تھے۔ لیکن اس آیت کا اعجاز دیکھیے کہ اس میں مطلق قوت کا لفظ
آيا ہے، تاکہ زمان و مکان کی قیود سے ماورا ساری قوتیں اس میں شامل ہو
جائیں۔ اسی طرح حدیث کا بھی علمی اعجاز دیکھیے کہ اس میں مطلق "الرمي" یعنی
پھینکنے اور چلانے کا لفظ آیا ہے، جس میں پھینکنے اور چلانے کی ساری شکلیں
شامل ہیں، چاہے وہ نئی سے نئی ہی کیوں نہ ہوں اور جدید سے جدید ہتھیاروں کے
ذریعے ہی کیوں نہ ہوں۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64642
|
|
Hadith 2063 الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى
عن كل ذي ناب من السباع، وعن كل ذي مخلب من الطير
Tema:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم
نےکچلی کے دانت والے ہر درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے ہر پرندے کا گوشت
کھانے سے منع کیا ہے |
عن ابن عباس -رضي الله عنهما- «أن رسول
الله -صلى الله عليه وسلم- نَهَى عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِن السِّبَاع، وعَن
كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِن الطَّيْرِ».
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے، وہ کہتے ہيں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے کچلی کے
دانت والے ہر درندے اور پنجے سے شکار کرنے والے ہر پرندے کا گوشت کھانے سے
منع کیا ہے۔ |
الأصل في الأطعمة واللحوم الحل
والإباحة, إلا ما استثناه الشرع بدليل خاص, وهذا الحديث يبين بعض الأصناف
التي نهى الشرع عن تناولها من اللحوم, وهي كل ذي نابٍ من السِّباع، وكل ذي
مخلبٍ من الطير، فكل ذي نابٍ من السِّباع محرَّم، وذو الناب من السباع: هو
الحيوان المفترس الذي جمع الوصفين الافتراس بالنَّاب والسبعيَّة
الطبيعِيَّة، كالأسد والنمر والذئب، فإذا تخلَّفت إحدى الصفتين لم يحرم,
وكذلك الحكم في كل ذي مخلب يصيد به من الطيور كالعقاب والباز والصقر ونحو
ذلك فهو محرَّم الأكل.
705;ھانے پینے کی چیزوں اور گوشت وغیرہ میں
اصل حلال اور مباح ہونا ہے، سوائے اس کے جس کا شریعت نے کسی خاص دلیل کی
بنا پر استثنا کر دیا ہو۔ اس حدیث میں گوشت کی بعض ایسی اصناف کا ذکر ہے
جنھیں شریعت نے کھانے سے منع کیا ہے۔ یعنی کچلی کے دانت والے ہر درندے اور
پنجے سے شکار کرنے والے ہر پرندے کا گوشت۔ لہذا، کچلی کے دانت والا ہر
درندہ حرام ہے۔ واضح ہو کہ اس سے مراد ایسا چیر پھاڑ کرنے والا درندہ ہے،
جس کے اندر اس میں مذکور دو اوصاف، یعنی کچلی کے دانت سے چیر پھاڑ کرنے اور
فطری درندگی کی صفتیں پائی جائیں، جیسے شیر، چیتا اور بھیڑیا وغیرہ۔ اگر ان
دونوں اوصاف میں سے ایک وصف بھی معدوم ہو، تو وہ جانور حرام نہیں ہوگا۔ اسی
طرح پنجے سے شکار کرنے والے سارے پرندے جیسے عقاب، باز اور گدھ وغیرہ حرام
ہیں۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64643
|
|
Hadith 2064 الحديث
الأهمية: الضبع صيد هي؟ قال جابر: «نعم»
Tema:
کیا لکڑ بگھا شکار ہے؟ انھوں نے جواب
دیا: ہاں۔ |
عن ابن أبي عَمَّار قال: قلت لجابر:
الضَّبْع صَيْدٌ هي؟ قال: «نعم»، قال: قلتُ: آكُلُها؟ قال: «نعم»، قال:
قلتُ له: أَقَالَهُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ قال: «نعم».
ابن ابو عمار سے روایت ہے، وہ کہتے ہيں
کہ میں نے جابر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: کیا لکڑ بگھا شکار ہے؟ انھوں نے
جواب دیا: ہاں! وہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: کیا میں اسے کھاوں؟ جواب دیا:
ہاں! وہ کہتے ہیں میں نے پوچھا: کیا یہ بات اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ
وسلم نے کہی ہے؟ جواب دیا: ہاں۔
Explicação Hadith بيان الحديث
سأل التابعي ابن أبي عمار -رحمه الله-
جابرَ بن عبد الله -رضي الله عنهما- عن حكم الضبع, وهل يجوز صيدها وأكلها؟
فأجابه بأن ذلك جائز, ثم استفهم ابن أبي عمار من جابر عن هذه الفتوى هل هو
شيء قاله برأيه, أو سمعه من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ فأخبره بأنه
سمع ذلك من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-.
Explicação Hadith بيان الحديث
ابن ابو عمار نامی تابعی نے جابر بن عبد
اللہ رضی اللہ عنہ سے لکڑ بگھا کے بارے میں پوچھا کہ کیا اس کا شکار کرنا
اور اسے کھانا جائز ہے؟ تو انھوں نے جواب دیا کہ ہاں جائز ہے۔ ابن ابو عمار
نے جابر رضی اللہ عنہ سے پھر پوچھا کہ کیا یہ فتوی انھوں نے اپنی رائے سے
دیا ہے یا اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ تو بتایا کہ انھوں
نے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64646
|
|
Hadith 2065 الحديث
الأهمية: نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن
الجلالة في الإبل: أن يركب عليها، أو يشرب من ألبانها
Tema:
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے
جلالہ یعنی گندگی کھانے والے اونٹ پر سوار ہونے اور اس کا دودھ پینے سے منع
کیا ہے |
عن ابن عمر -رضي الله عنهما-، قال: "نهى
رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن الجَلَّالَة في الإبِل: أنْ يُرْكَبَ
عليها، أو يُشْرَب مِن أَلْبَانِها".
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جلالہ یعنی
گندگی کھانے والے اونٹ پر سوار ہونے اور اس کا دودھ پینے سے منع کیا ہے۔
Explicação Hadith بيان الحديث
أفاد الحديث النَّهي عن ركوب الجلاَّلة
من الإبل، والنهي عن شرب لبنها, -وهو متضمن للنهي عن أكل لحومها كما ورد في
الأحاديث الأخرى-, والنهي في الحديث ليس خاصًّا بجنس الإبل بل هو عام في كل
ما يتغذى على النجاسات والعذرات من الحيوان والطيور المأكولة -إن كان أكثر
علفها من ذلك- ؛ لأنَّ لحمها ولبنها وعرقها صارت متولدات من النجاسة، فهي
نجسة, إلا إذا غذيت بعد ذلك بطاهر ثلاثة أيام فأكثر، فيرتفع المنع حينئذ.
Explicação Hadith بيان الحديث
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جلالہ یعنی
گندگی کھانے والے اونٹ پر سوار ہونا اور اس کا دودھ پینا منع ہے۔ ویسے اس
میں اس کا گوشت کھانے کی ممانعت بھی شامل ہے، جیسا کہ دوسری حدیثوں سے ثابت
ہے۔ یاد رہے کہ اس حدیث میں جو ممانعت آئی ہے، وہ صرف اونٹ کے ساتھ خاص
نہیں ہے، بلکہ اس کے ضمن میں وہ سارے ماکول اللحم جانور اور پرندے آ جاتے
ہیں، جو گندگیاں اور نجاستیں کھاتے ہیں، اگر ان کا زیادہ تر گزارہ اسی سے
ہوتا ہو تو، کیونکہ ان کا گوشت، دودھ اور پسینہ چوں کہ نجاست کے نتیجے میں
پیدا ہوتا ہے، اس لیے وہ نجس ہوگا۔ ہاں! اگر اس کے بعد لگاتار تین یا اس سے
زیادہ دنوں تک پاک چیزیں کھلائی جائیں، تو ممانعت ختم ہو جائے گی۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64648
|
|
Hadith 2066 الحديث
الأهمية: أهدت أم حفيد خالة ابن عباس إلى النبي
-صلى الله عليه وسلم- أقطًا وسمنًا وأضبًّا، فأكل النبي -صلى الله عليه
وسلم- من الأقط والسمن، وترك الضب تقذرًا
Tema:
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی
خالہ ام حفید نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو پنیر، گھی اور سانڈے ہدیے کے
طور پر بھیجے، تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم- نے پنیر اور گھی میں
سے کھایا اور سانڈہ کو کراہت کی وجہ سے چھوڑ دیا۔ |
عن ابن عباس -رضي الله عنهما- قال:
«أَهْدَتْ أُمُّ حُفَيْدٍ خَالَةُ ابْنِ عباس إلى النبي -صلى الله عليه
وسلم- أَقِطًا وَسَمْنًا وَأَضُبًّا، فأَكَل النبي -صلى الله عليه وسلم- من
الأَقِطِ وَالسَّمْنِ، وَتَرَكَ الضَّبَّ تَقَذُّرًا»، قال ابن عباس:
«فَأُكِلَ على مائدة رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولو كان حراما ما
أُكِلَ على مائدة رسول الله -صلى الله عليه وسلم-».
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے
روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ ان کی خالہ ام حفید نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کو پنیر، گھی اور سانڈے ہدیے کے طور پر بھیجے، تو اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ و سلم نے پنیر اور گھی میں سے کھایا اور سانڈہ کو کراہت کی وجہ
سے چھوڑ دیا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں: پھر اسے اللہ کے رسول صلی
اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھایا گیا۔ اگر وہ حرام ہوتا، تو اللہ کے
رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے دسترخوان پر کھایا نہ جاتا"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
يذكر ابن عباس -رضي الله عنهما- في هذا
الحديث أن خالته أم حفيد أهدت إلى النبي -صلى الله عليه وسلم- طعامًا:
أقطًا وسمنًا وأضبًّا, فأكل -صلى الله عليه وسلم- من الأقط والسمن وترك أكل
الأضب؛ لأنه مما تعافه نفسه -صلى الله عليه وسلم-, فكراهته له طبعًا، لا
دينًا؛ لأنه بيّن سبب تركه، بأنه لم يكن فِي أرض قومه -كما في روايات
الحديث الأخرى-، فدلّ عَلَى أنه ما تركه تديّنًا، بل لنفرة طبعه منه, ثم
استدل ابن عباس على إباحة أكل الضب بأنه أكل على مائدة النبي -صلى الله
عليه وسلم-, ولو كان حرامًا لما أقر غيره على أكله في مائدته.
Explicação Hadith بيان الحديث
اس حدیث میں عبد اللہ بن عباس رضی اللہ
عنہما بیان کر رہے ہیں کہ ان کی خالہ ام حفید نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کو پنیر، گھی اور سانڈے ہدیہ کیا، تو آپ نے پنیر اور گھی میں سے کھایا
اور سانڈے کو چھوڑ دیا؛ کیونکہ آپ کو اس سے گھن محسوس ہوتی تھی۔ اس سے
اندازہ ہوتا ہے کہ آپ اس سے طبعی طور پر کراہت محسوس کرتے تھے، دینی طور پر
نہیں۔ خود آپ نے اسے نہ کھانے کا سبب یہ بیان کیا ہے، جیسا کہ اس حدیث کی
دوسری روایتوں میں آیا ہے کہ وہ آپ کی قوم کی سر زمین میں نہیں ہوتا ہے۔ آپ
کا یہ سبب بیان کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اسے کھانے سے گريز دینی وجہ سے
نہیں کیا، بلکہ طبعی تنفر کی وجہ سے کیا۔ پھر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ
نے سانڈہ کے مباح ہونے کی دلیل اس بات سے لی ہے کہ اسے آپ کے دسترخوان پر
کھایا گیا، کیونکہ اگر وہ حرام ہوتا، تو آپ اس بات کو گوارہ نہیں کرتے کہ
اسے آپ کے دسترخوان پر کھایا جائے۔
Referência: Enciclopédia Hadith @ 64650
|
|
Hadith 2067 الحديث
الأهمية: إذا رميت بسهمك، فغاب عنك، فأدركته
فكله، ما لم ينتن
Tema:
جب تم کسی شکار پر تیر چلاو اور وہ غائب
ہو جائے اور پھر بعد میں ملے، تو اسے کھاو، جب تک اس میں بد بو نہ آ جائے |
عن أبي ثعلبة -رضي الله عنه- عن النبي
-صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا رَمَيْتَ بِسَهْمِكَ، فغابَ عنْك،
فَأَدْرَكْتَهُ فَكُلْهُ، ما لَمْ يُنْتِنْ».
ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ
کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : "جب تم کسی شکار پر تیر
چلاو اور وہ غائب ہو جائے اور پھر بعد میں ملے، تو اسے کھاو، جب تک اس میں
بد بو نہ آ جائے"۔
Explicação Hadith بيان الحديث
أفاد الحديث أن الصائد إذا رمى الصيد
بسهم ونحو ذلك مما هو في حكم السهم, فأصاب الصيد ثم غاب عن عين الصياد،
ووجده بعد ذلك, ولم يجد فيه أثرًا قاتلاً إلاَّ سهمه جاز أكله ما لم يصل
إلى مرحلة التغير والنتن؛ لأنه يصير حينئذ من الخبائث, ويضر بصحة الإنسان
إذا أكله.
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|
|