Hadith Explorer em português مكتشف الحديث باللغة الإنجليزية
 
Hadith   79   الحديث
الأهمية: نَحَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- فَرَسًا فَأَكَلْنَاهُ


Tema:

ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گھوڑا ذبح کیا اور کھایا۔

عن أَسْمَاء بِنْت أَبِي بَكْرٍ-رضي الله عنهما- قالت: «نَحَرْنَا عَلَى عَهْدِ رَسُولِ الله-صلى الله عليه وسلم- فَرَسًا فَأَكَلْنَاهُ». وَفِي رِوَايَةٍ «وَنَحْنُ بِالْمَدِينَةِ».

اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ ”ہم نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں گھوڑا ذبح کیا اور اُس کو کھایا“۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ ”ہم اس وقت مدینہ میں تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تُخبِرُ أَسْمَاءُ بِنْت أبي بكر الصديق -رضي الله عنهما- أنهم نَحَرُوا فَرَساً عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ -صلى الله عليه وسلم- وَأَكَلُوهُ، وفي ذلك دَلَالَةٌ عَلَى جَوَازِ أَكْلِ لُحُومِ الخَيْلِ، ولا يَتَوَهَم أَحَدٌ مَنْعَ أَكْلِهَا لاقْتِرَانِهَا مَعَ الحَمِيرِ والْبِغَالِ في الآية، وهي قوله تعالى: (وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لا تَعْلَمُونَ)، [ النحل : 8 ].
575;سماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما بتا رہی ہیں کہ ان لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کے زمانے میں ایک گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا۔ اس میں اس بات کی دلالت ہے کہ گھوڑوں کا گوشت کھانا جائز ہے۔ کوئی شخص یہ گمان نہ کرے کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان میں انہیں گدھوں اور خچروں کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے اس لیے ان کا کھانا ممنوع ہے۔ (وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لا تَعْلَمُونَ) [ النحل :8]۔
ترجمہ:”گھوڑوں کو، خچروں کو، گدھوں کو اس نے پیدا کیا تاکہ تم ان کی سواری لو اور وه باعثِ زینت بھی ہیں۔ اور بھی وه ایسی بہت چیزیں پیدا کرتا ہے جن کا تمہیں علم بھی نہیں“۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3000

 
 
Hadith   80   الحديث
الأهمية: نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَمْشِيَ إلَى بَيْتِ الله الْحَرَامِ حَافِيَةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أَسْتَفْتِيَ لَهَا رَسُولَ الله-صلى الله عليه وسلم- فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ: لِتَمْشِ وَلْتَرْكَبْ


Tema:

میری بہن نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک پیدل ننگے پاؤں جائے گی۔اس نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لیے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھوں، میں نے اس کے لیے آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”وہ پیدل جائے اور سوار ہو کر (بھی) جائے“۔

عن عُقْبَة بْن عَامِرٍ -رضي الله عنه- قال: «نَذَرَتْ أُخْتِي أَنْ تَمْشِيَ إلَى بَيْتِ الله الْحَرَامِ حَافِيَةً، فَأَمَرَتْنِي أَنْ أَسْتَفْتِيَ لَهَا رَسُولَ الله-صلى الله عليه وسلم- فَاسْتَفْتَيْتُهُ، فَقَالَ: لِتَمْشِ وَلْتَرْكَبْ».

عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میری بہن نے نذر مانی کہ وہ بیت اللہ تک پیدل ننگے پاؤں جائے گی۔ اس نے مجھے حکم دیا کہ میں اس کے لیے رسول اللہ ﷺ سے اس بارے میں مسئلہ پوچھوں، میں نے اس کے لیے آپ ﷺ سے مسئلہ پوچھا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ”وہ پیدل جائے اور سوار ہو کر (بھی) جائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
مِنْ طَبِيعَةِ الإنسَان أنَّه يَنْدَفِعُ أحياناً فَيُوجِبُ على نفسه مَا يَشُقُّ عليه، وقد جاء شَرْعُنا بالاعتدَال، وعدمِ المشَقَّة عَلى النَّفس في العِبادة حتى تَسْتَمِر، وفي هذا الحدِيثِ طلبت أخت عقبة بن عامر منه، أن يسأل رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أنها نذرت أن تذهب إلى البيت الحرام ماشية حافية، فرَأَى النَّبي -صلى الله عليه وسلم- أنَّ هذه المرأة تُطِيقُ شَيئاً مِن المشي، فَأمَرَها أَنْ تَمشِي مَا أَطَاقَت المشي، وأَنْ تَرْكَبَ إذا عَجَزَت عَن المشي.
575;نسان کی یہ طبیعت ہے کہ وہ بعض اوقات جذبات کی رو میں اپنے آپ پر کوئی ایسی شے واجب کر بیٹھتا ہے جس کا کرنا اس کے لیے باعثِ مشقت ہوتا ہے۔ ہماری شریعت میں عبادت کے سلسلے میں اعتدال اور عدم مشقت کو ملحوظ رکھا گیا ہے تاکہ یہ ہمیشہ جاری رہے۔ اس حدیث میں ہے کہ عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ کی بہن نے ان سے کہا کہ وہ رسول اللہ ﷺ سے دریافت کریں کہ انہوں نے بیت الحرام کی طرف ننگے پاؤں پیدل جانے کی نذر مانگی تھی؟ (اس کے بارے میں کیا حکم ہے؟) آپ ﷺ نے دیکھا کہ یہ عورت کچھ چلنے کی طاقت رکھتی ہے اس لیے آپ ﷺ نے اسے حکم دیا کہ وہ اتنا چلے جتنا وہ چلنے کی طاقت رکھتی ہے اور جب نہ چل سکے تو پھر سوار ہو جائے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3001

 
 
Hadith   81   الحديث
الأهمية: نَهَى رَسُولُ الله عَنْ لُبْسِ الْحَرِيرِ إلاَّ مَوْضِعَ أُصْبُعَيْنِ، أَوْ ثَلاثٍ، أَوْ أَرْبَعٍ


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا ہے سوائے دو یا تین یا چار انگشت کے برابر۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- أَنَّ رَسُولَ الله -صلى الله عليه وسلم- «نهى عن لُبُوسِ الحَرِيرِ إلا هكذا، ورَفَعَ لنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أُصْبُعَيْهِ: السَّبَّابَةَ، والوُسْطَى».
ولمسلم «نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن لُبْس ِالحَرِيرِ إلا مَوْضِعَ أُصْبُعَيْنِ، أو ثلاثٍ، أو أربعٍ».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا سوائے اتنی مقدار کے۔ (یہ فرما کر) رسول اللہ ﷺ نے ہمارے سامنے اپنی دو انگلیوں یعنی انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو اوپر اٹھایا۔
صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ریشم پہننے سے منع فرمایا سوائے اتنی مقدار کے جو دو یا تین یا چار انگشت کے برابر ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- نهى الذكور عن لبس الحرير إلا ما استثني، والمستثنى في الحديث المتفق عليه أصبعين، وفي رواية مسلم أو ثلاث أو أربع، فيؤخذ بالأكثر؛ فلا بأس من مقدار أربعة أصابع من الحرير في اللباس.
585;سول اللہ ﷺ نے مردوں کو ریشم پہننے سے منع فرمایا ماسوا اس مقدار کے جسے اس ممانعت سے مستثنیٰ کیا گیا ۔ متفق علیہ (صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی) حدیث میں جس مقدار کو مستثنیٰ کیا گیا ہے وہ دو انگشت کے برابر ہے، جب کہ صحیح مسلم کی روایت میں (دو) یا تین یا چار انگشت کا استثناء ہے۔ جو مقدار زیادہ ہے اس کا اعتبار کیا جائے گا۔ چنانچہ لباس میں چار انگشت کے برابر ریشم کے استعمال میں کوئی حرج نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3002

 
 
Hadith   82   الحديث
الأهمية: أن النبيَّ -صلى الله عليه وسلم- نَهَى عن لُحُومِ الْحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، وأذن في لحوم الخيل


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع کر دیا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت دی۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما-: (أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهى عن لحوم الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ، وأَذِنَ في لحوم الخيل).
ولمسلم وحده قال: (أكلنا زمن خيبر الخيل وحُمُرَ الوَحْشِ، ونهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الحمار الأَهْلِيِّ).
عن عبد الله بن أبي أوفى -رضي الله عنه- قال: (أصابتنا مجاعة ليالي خيبر، فلما كان يوم خيبر: وقعنا في الحُمُرِ الأَهْلِيَّةِ فانْتَحَرْنَاهَا، فلما غَلَتِ بها القُدُورُ: نادى مُنَادِي رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أن أَكْفِئُوا القُدُورَ، وربما قال: ولا تأكلوا من لحوم الحُمُرِ شيئا).
عن أبي ثعلبة -رضي الله عنه- قال: (حَرَّمَ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- لحوم الحُمُر الأَهْلِيَّةِ).

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع کر دیا اور گھوڑے کے گوشت کی اجازت دی۔
مسلم کی روایت کے مطابق :خیبر کے موقعے پر ہم نے گھوڑے اور جنگلی گدھے کا گوشت کھایا، جب کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کے گوشت سے منع فرما دیا۔
عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: جنگ خیبر کی راتوں میں ہم بھوک کےشکار ہو گئے۔ جب خیبر کی جنگ کا دن آیا، تو ہم پالتو گدھوں پر ٹوٹ پڑے، جب ہماری ہانڈیوں میں گوشت ابلنے لگا، تو اعلان کرنے والے نے یہ اعلان کردیا کہ ہانڈیاں الٹ دو، پالتو گدھوں کے گوشت میں سے کچھ بھی نہ کھاؤ۔
ابو ثعلبہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے گھریلو گدھے کا گوشت حرام قرار دیا ہے

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يُخبرُ جابرُ بنُ عبدالله -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- نهَى عن لحُومِ الحُمُرِ الأهْلِيةِ، أي: نَهَى عَنْ أَكْلِهَا، وَأَنَّه أبَاحَ وأَذِنَ في لُحُومِ الْخَيلِ والْحِمَارِ الوَحْشِي، ويُخبر عبدالله بن أبي أوفى -رضي الله عنهما- بأنَّهم حَصَلَتْ لهم مَجَاعَةٌ في لَيَالي مَوْقِعَةِ خَيْبَر، ولما فُتِحَت انْتَحَرُوا مِنْ حُمُرِها، وأَخَذُوا مِنْ لَحْمِها وطَبَخُوهُ، ولما طَبَخُوه أَمَرَهُم النبي -صلى الله عليه وسلم- بكفْئ ِالقدورِ أي قلبها، وعَدَمِ الأَكل من ذلك اللحم.
580;ابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما یہ بتا رہے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔ جب کہ گھوڑے اور جنگلی گدھے کے گوشت کو حلال قرار دیتے ہوئے کھانے کی اجازت دی ہے۔ عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ بتا رہے ہیں کہ غزوۂ خیبر کےموقع پر ان کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ جب فتح حاصل ہو گئی، تو انھوں نے حاصل ہونے والے گدھوں کو ذبح کیا اور ان کا گوشت لے کر پکایا۔ جب پکا چکے، تو رسول اللہ ﷺ نے انھیں ہانڈیاں الٹ دینے اور کھانے سے پرہیز کرنے کا حکم دیا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3003

 
 
Hadith   83   الحديث
الأهمية: يا عبدَ الرحمَنِ بْنَ سَمُرَةَ، لا تَسْأَلْ الإِمَارَةَ؛ فَإِنَّكَ إن أُعْطِيتَها عن مسأَلَةٍ وُكِّلْتَ إليها


Tema:

اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت طلب نہ کر، کیوں کہ اگر مانگنے کے بعد امارت دے دی گئی تو تم اسی کے حوالہ کر دیے جاؤ گے۔

عن عَبْد الرَّحْمَنِ بْن سَمُرَةَ -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال له: «يا عبد الرحمن بن سَمُرَة، لا تَسْأَلِ الإِمَارَةَ؛ فإنك إن أُعْطِيتَها عن مَسْأَلَةٍ وُكِلْتَ إليها، وإن أُعْطِيتَهَا عن غير مَسْأَلَةٍ أُعِنْتَ عليها، وإذا حَلَفْتَ على يمينٍ فرأيتَ غيرها خيرًا منها، فَكَفِّرْ عن يمينك، وَأْتِ الذي هو خير».

عبدالرحمٰن بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ان سے کہا: ”اے عبدالرحمٰن بن سمرہ! امارت طلب نہ کر، کیوں کہ اگر مانگنے کے بعد امارت دے دی گئی تو تم اسی کے حوالہ کر دیے جاؤ گے۔ اور اگر بغیر مانگے تمہیں مل جائے تو اس میں (اللہ کی طرف سے) تمہاری مدد کی جائے گی۔ اور جب تم کوئی قسم کھا لو اور اس کے سوا کسی اور چیز میں بھلائی دیکھو تو اپنی قسم کا کفارہ دے دو اور وہ کام کرو جو بھلائی کا ہو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن سؤال الإمارة؛ لأنَّ مَن أعطيها عن مسألةٍ خُذِلَ وتُرِكَ لِرَغْبَتِه في الدنيا وتفضيلها على الآخرة، وأن من أُعْطِيَها عَنْ غَيْرِ مسألةٍ أعانَهُ اللهُ علَيها، وأنَّ الحَلف على شيء لا يكون مانعًا عن الخير، فإن رأى الحالفُ الخيرَ في غيرِ الحلف فلَه التَّخَلُص من الحلف بالكفارة ثم يأت الخير.
585;سول اللہ ﷺ نے امارت مانگنے سے منع فرمایا ہے کیوں کہ جس کو مانگنے سے امارت ملے وہ رسوا کر دیا جائے گا اور اس کو دنیا کی رغبت رکھنے اور اُس کو آخرت پر ترجیح دینے والا مان کر چھوڑ دیا جائے گا۔ اور جس کو بغیر مانگے ملے تو اس پر اس کی اللہ تعالیٰ کی طرف سے مدد کی جائے گی۔ کسی چیز پر قسم اٹھانا خیر وبھلائی کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہونی چاہیے اگر قسم اٹھانے والا دیکھتا ہے کہ جس پر قسم اٹھائی گئی ہے اس سے ہٹ کر معاملے میں خیر ہو تو اپنی قسم کا کفارہ دے کر اس سے چھٹکارا حاصل کرے اور جس میں خیر ہو اسے اختیار کرے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3004

 
 
Hadith   84   الحديث
الأهمية: ألا أُخْبِرُكُم عن النَّفَرِ الثلاثة: أما أحدهم فأَوَى إلى الله فآوَاهُ الله إليه، وأما الآخر فاسْتَحْيا فاسْتَحْيَا الله منه، وأما الآخر، فأعْرَضَ، فأعرضَ اللهُ عنه


Tema:

کیا میں تمہیں تین افراد کے بارے میں نہ بتاؤں؟ ان میں سے ایک نے اللہ کے پاس ٹھہرنا چاہا تو اللہ نے بھی اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا جب کہ دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے بھی اس سے حیا کی اور تیسرے نے منہ موڑا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا۔

عن أبي واقد الحارث بن عوف -رضي الله عنه- أنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- بينما هو جالس في المسجد، والناس معه، إذ أقبل ثلاثَةُ نَفَرٍ، فأقبل اثنان إلى رسول الله، -صلى الله عليه وسلم- وذهب واحد، فوقفا على رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فأما أحدهما فرأى فُرْجَةً في الْحَلْقَةِ فجلس فيها، وأما الآخر فجلس خلفهم، وأما الثالث فأدْبَر ذاهبٍا، فلما فرغ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «ألا أُخْبِرُكُم عن النَّفَرِ الثلاثة: أما أحدهم فأَوَى إلى الله فآوَاهُ الله إليه، وأما الآخر فاسْتَحْيا فاسْتَحْيَا الله منه، وأما الآخر، فأعْرَضَ، فأعرضَ اللهُ عنه».

ابو واقد حارث بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں تشریف فرما تھے اور لوگ بھی آپ ﷺ کے ساتھ بیٹھے تھے کہ اتنے میں تین افراد آئے۔ دو تو رسول اللہ ﷺ کی طرف آ گیے اور ایک واپس چلا گیا۔ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کے پاس آ کر کھڑے ہو گیے۔ ان میں سے ایک نے حلقے میں کچھ کشادگی دیکھی تو وہاں بیٹھ گیا اور دوسرا لوگوں کے پیچھے بیٹھ گیا جب کہ تیسرا واپس لوٹ گیا۔ جب رسول اللہ ﷺ (اپنی گفتگو سے) فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا میں تمہیں تین افراد کے بارے میں نہ بتاوں؟ ان میں سے ایک نے اللہ کے پاس ٹھہرنا چاہا تو اللہ نے بھی اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا جب کہ دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے بھی اس سے حیا کی (کہ اسے مجلس کی برکت سے محروم نہ رکھا) اورتیسرے نے منہ موڑا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث أنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان جالسا في المسجد، والناس معه، إذ أقبل ثلاثَةُ رجال، فأقبل اثنان إلى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وذهب واحد؛ فوقفا عند حلقة رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، فأما أحدهما فرأى مكاناً فارغاً في الْحَلْقَةِ فجلس فيها، والحلقة رجال جالسون على شكل دائرة أمام النبي -صلى الله عليه وسلم- وأما الآخر فجلس خلفهم، وأما الثالث فرجع وانصرف، فلما فرغ وانتهى رسول الله -صلى الله عليه وسلم- من حديثه الذي كان فيه، قال للصحابة ألا أُخْبِرُكُم عن الرجال الثلاثة: أما أحدهم فأَوَى إلى الله فآوَاهُ الله إليه أي جلس في المكان الفارغ يستمع ذكر الله فأكرمه الله بفضيلة ذلك المجلس المبارك، وأما الآخر فاسْتَحْيا فاسْتَحْيَا الله منه أي امتنع من المزاحمة؛ فجلس خلف الحلقة فلم يُمنع من بركة المجلس، وأما الآخر فأعْرَضَ، فأعرضَ اللهُ عنه أي ذهب بلا عذر فمُنع بركة المجلس.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ مسجد میں لوگوں کے ہمراہ تشریف فرما تھے کہ اتنے میں تین آدمی وہاں آئے۔ ان میں سے دو تو رسول اللہ ﷺ کی طرف آ گیے اور ایک واپس چلا گیا۔ وہ دونوں رسول اللہ ﷺ کےحلقے کے پاس آکر کھڑے ہوگیے۔ ان میں سے ایک کو حلقے میں خالی جگہ نظر آئی تو وہ وہاں بیٹھ گیا۔ اس حلقے میں کچھ لوگ تھے جو نبی ﷺ کے سامنے گول دائرے کی شکل میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جب کہ دوسرا شخص ان کے پیچھے ہی بیٹھ گیا اور تیسرا شخص واپس لوٹ گیا۔ نبی ﷺ جو گفتگو فرما رہے تھے اس سے جب فارغ ہوئے تو آپ ﷺ نے اپنے صحابہ سے فرمایا کہ کیا میں تمہیں تین آدمیوں کے بارے میں نہ بتاؤں؟۔ ان میں سے ایک نے اللہ کے پاس ٹھہرنا چاہا تو اللہ نے بھی اسے اپنے پاس ٹھہرا لیا یعنی اس نے خالی جگہ پر بیٹھ کر اللہ کا ذکر سننا شروع کر دیا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اسے اس مبارک مجلس کی فضیلت سے نوازا۔ جب کہ دوسرے نے حیا کی تو اللہ نے بھی اس سے حیا کی یعنی (کسی کو ) دھکیلے بغیر وہ حلقے کے پیچھے بیٹھ گیا چنانچہ اسے بھی اس مجلس کی برکت سے محروم نہ رکھا گیا۔ جب کہ تیسرے شخص نے منہ موڑا تو اللہ نے بھی اس سے منہ موڑ لیا یعنی وہ بلا کسی عذر کے واپس چلا گیا اس لیے مجلس کی برکت سے محروم کر دیا گیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3005

 
 
Hadith   85   الحديث
الأهمية: قال قل: اللهم فاطِرَ السماوات والأرض عالم الغيبِ والشهادة؛ ربَّ كُلِّ شَيءٍ ومَلِيكَه، أَشْهد أن لا إله إلا أنت، أعوذ بك من شرِّ نفسي وشرِّ الشيطان وشِرْكِهِ


Tema:

آپ ﷺ نے فرمایا کہ یوں کہا کرو:”اے اللہ!،اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، اے غیب و حاضر کو جاننے والے، اے وہ ذات جو ہر شے کی رب اور مالک ہے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ میں اپنے نفس کے شر سے اور شیطان کے شراوراس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں“۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن أبا بكر الصديق -رضي الله عنه- قال: يا رسول الله مُرني بكلمات أقُولُهُنَّ إذا أصبَحتُ وإذا أمسَيتُ، قال: «قل: اللهم فاطِرَ السماوات والأرض عالم الغيبِ والشهادة، ربَّ كُلِّ شَيءٍ ومَلِيكَه، أَشْهد أن لا إله إلا أنت، أعوذ بك من شرِّ نفسي وشرِّ الشيطان وشِرْكِهِ وأن أقترف على نفسي سوءًا أو أجرُّه إلى مسلم» قال: «قلها إذا أصبحت، وإذا أمسيت، وإذا أخذْتَ مَضْجَعَك».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے کچھ ایسے کلمات بتائیں جنھیں میں صبح شام پڑھوں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ یوں کہا کرو: ((اللهم فاطِرَ السماوات والأرض عالمَ الغيبِ والشهادة؛ ربَّ كُلِّ شَيءٍ ومَلِيكَه، أَشْهدُ أن لا إله إلا أنت، أعوذ بك من شرِّ نفسي وشرِّ الشيطان وشِرْكِهِ)) ترجمہ: ”اے اللہ،اے آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، اے غیب و حاضر کو جاننے والے،اے وہ ذات جو ہر شے کی رب اور مالک ہے! میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ میں اپنے نفس کے شر نیز شیطان کے شر اور اس کے شرک سے تیری پناہ میں آتا ہوں“۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”جب صبح کرو تب یہ (دعا) پڑھو، جب شام کرو تب بھی پڑھو اور جب اپنے بستر پر جاؤ اس وقت بھی پڑھو“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الذكر من الأذكار التي تقال في الصباح والمساء، والذي علَّمها النبي -صلى الله عليه وسلم- أبا بكر -رضي الله عنه- حيث قال: علمني.   فعلمه النبي -صلى الله عليه وسلم- ذكرًا ودعاءً يدعو به كلما أصبح وكلما أمسى، وأمره أن يقول: (اللهم فاطر السماوات والأرض) يعني: يا الله يا فاطر السماوات والأرض وفاطرهما، يعني أنه خلقهما عز وجل على غير مثال سبق، بل أبدعهما وأوجدهما من العدم على غير مثال سبق.
(عالم الغيب والشهادة) أي: عالم ما غاب عن الخلق وما شاهدوه؛ لأن الله تعالى يعلم الحاضر والمستقبل والماضي.
(رب كل شيء ومليكه)، يعني: يا رب كل شيء ومليكه، والله تعالى هو رب كل شيء وهو مليك كل شيء.
(أشهد أن لا إله إلا أنت): أعترف بلساني وقلبي أنه لا معبود حق إلا أنت، فكل ما عبد من دون الله فإنه باطل لا حق له في العبودية ولا حق في العبودية إلا لله وحده -عز وجل-.
قوله: أ(عوذ بك من شر نفسي)؛ لأن النفس لها شرور كما قال -تعالى-: (وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي)، فإذا لم يعصمك الله من شرور نفسك فإنها تضرك وتأمرك بالسوء، ولكن الله إذا عصمك من شرها وفقك إلى كل خير.
وختم النبي -عليه الصلاة والسلام- بقوله: (ومن شر الشيطان وشِرْكه) وفي لفظ وشَرَكه، يعني: تسأل الله أن يعيذك من شر الشيطان ومن شر شِركه، أي: ما يأمرك به من الشِّرك أو شَرَكه، والشَرَك: ما يصاد به الحوت والطير وما أشبه ذلك؛ لأن الشيطان له شرَك يصطاد به بني آدم إما شهوات أو شبهات أو غير ذلك، (وأن أقترف على نفسي سوءًا)، أي: أجر على نفسي سوءًا (أو أجره إلى مسلم).
فهذا الذكر أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- أبا بكر أن يقوله إذا أصبح وإذا أمسى وإذا أخذ مضجعه.
740;ہ ذکر ان اذکار میں سے ہے جنہیں صبح و شام کیا جاتا ہے اور جس کی تعلیم نبی ﷺ نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو دی جب انھوں نے عرض کیا کہ: "مجھے سکھائیں"۔ چنانچہ نبی ﷺ نے انھیں صبح و شام کیا جانے والا ذکر اور دعا سکھائی اور ان سے کہا کہ وہ یوں کہا کریں: " اللهم فاطرَ السماواتِ والأرضِ"۔ یعنی اے اللہ، اے آسمانوں اور زمین دونوں کے پیدا کرنے والے!۔ "فاطر" کا مطلب یہ ہے کہ اللہ نے انھیں بغیر کسی سابقہ نمونے کے پیدا کیا اور بنا کسی پیشگی مثال کے انھیں عدم سے وجود بخشا۔
"عالم الغيب و الشهادة"۔ یعنی ان اشیاء کو بھی جانتا ہے جو مخلوق کی نگاہوں سے اوجھل ہیں اور ان کو بھی جانتا ہے جنھیں وہ دیکھتے ہیں کیوں کہ اللہ تعالیٰ حال، مستقبل اور ماضی سب سے واقف ہے۔
"رب كل شئ و مليكه"۔ یعنی اے ہر چیز کے رب اور ہر چیز کے مالک!۔ اللہ تعالی ہر چیز کے رب اور مالک ہیں۔
"أشهد أن لا إله إلا أنت"۔ میں اپنی زبان اور دل سے اس بات کا اعتراف کرتا ہوں کہ تیرے سوا کوئی معبودِ برحق نہیں۔ اللہ کے علاوہ جس کی بھی پوجا کی جاتی ہے وہ باطل ہے اور عبودیت میں اس کا کوئی حق نہیں۔ عبودیت کے حق دار صرف اور صرف اللہ عز و جل ہیں۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "أعوذ بك من شر نفسي"۔ کیوں کہ نفس کی شر انگیزیاں ہوتی ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’وما أبرئ نفسي إن النفس لأمارة بالسوء إلا ما رحم ربي‘‘ (یوسف: 53)۔ ترجمہ: "اور میں اپنے نفس کو پاک نہیں کہتا، بے شک نفس تو برائی سکھاتا ہے اِلاّ یہ کہ جس پر میرا رب مہربانی کرے"۔ جب اللہ آپ کو آپ کے نفس کی شر انگیزیوں سے نہ بچائے تو وہ آپ کو نقصان پہنچاتا ہے اور برائی پر اکساتا ہے۔ لیکن اگر اللہ آپ کو اس کے شر سے محفوظ کر دے تو آپ کو ہر نیکی کی توفیق دیتا ہے۔
نبی ﷺ نے اپنی دعا کا اختتام ان الفاظ کے ساتھ فرمایا: " ومن شر الشيطان وشِرْكه"۔ ایک اور روایت میں " و شَرَكه" کے الفاظ ہیں۔ یعنی آپ اللہ سے دعا مانگتے ہیں کہ وہ آپ کو شیطان کے شر اور اس شرک سے پناہ دے جس پر وہ اکساتا ہے یا اس کے جال سے بچائے۔ "الشَرَک" اس چیز کو کہا جاتا ہے جس سے مچھلیاں اور پرندے وغیرہ شکار کیے جاتے ہیں۔ کیونکہ شہوات و شبہات وغیرہ شیطان کے جال ہیں جن سے وہ انسانوں کا شکار کرتا ہے۔
" وأن اَقترفُ على نفسي سوءا"۔ یعنی خود اپنے آپ کے ساتھ کچھ برا کروں یا پھر کسی مسلمان کو برائی پہنچاؤں۔ نبی ﷺ نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ اس ذکر کو صبح و شام اور اس وقت کیا کریں جب اپنے بستر پر لیٹ جائیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3006

 
 
Hadith   86   الحديث
الأهمية: خرج معاوية -رضي الله عنه- على حَلْقَةٍ في المسجد، فقال: ما أَجْلَسَكم؟ قالوا: جلسنا نذكر الله


Tema:

معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں لوگوں کے ایک حلقے کے پاس آئے اور پوچھا: تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔

عن أبي  سعيد الخدري –رضي الله عنه- قال: خرج معاوية -رضي الله عنه- على حَلْقَةٍ في المسجد، فقال: ما أَجْلَسَكم؟ قالوا: جلسنا نذكر الله، قال: آلله ما أجْلَسَكُم إلا ذاك؟ قالوا: ما أجلسنا إلا ذاك، قال: أما إنّي لم استَحْلِفْكُم تُهْمَةً لكم، وما كان أحد بمنزلتي من رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أقَلَّ عنه حديثاً مِنِّي: إنَّ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- خَرَجَ على حَلْقَةٍ من أصحابه فقال: «ما أَجْلَسَكم؟» قالوا: جلسنا نذكر الله ونَحْمَدُهُ على ما هَدَانا للإسلام؛ ومَنَّ بِهِ علينا، قال: «آلله ما أجْلَسَكُم إلا ذاك؟» قالوا: والله ما أجلسنا إلا ذاك، قال: «أما إنّي لم أستحلفكم تُهْمَةً لكم، ولكنه أتاني جبريل فأخبرني أن الله يُبَاهِي بكم الملائكة».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ معاویہ رضی اللہ عنہ مسجد میں لوگوں کے ایک حلقے کے پاس آئے اور پوچھا: تم یہاں کس لیے بیٹھے ہو؟۔ انھوں نے جواب دیا: ہم اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نےکہا: قسم کھاؤ کہ تم صرف اس غرض سے بیٹھے ہو؟۔ انھوں نے کہا: ہم صرف اسی غرض سے بیٹھے ہیں۔ اس پر معاویہ رضی اللہ عنہ نےکہا کہ میں نے اس وجہ سے تم سے قسم نہیں اٹھوائی کہ مجھے تم پر شک تھا۔کوئی شخص بھی ایسا نہیں جو( رسول اللہ ﷺ سے) احادیث کو روایت کرنے میں مجھ سے کم ہو۔ رسول اللہ ﷺ اپنے صحابہ کے ایک حلقے کے پاس آئے اور فرمایا: تم کس لیے بیٹھے ہو؟ ۔ انھوں نے جواب دیا:ہم بیٹھے اللہ کا ذکر کر ر ہے ہیں اور اس نے دین اسلام کی طرف ہدایت بخش کر ہم پر جو احسان کیا اس پراس کی حمد بیان کر رہے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: قسم کھاؤ کہ تم اسی غرض سے بیٹھے ہو۔ انھوں نے کہا: اللہ کی قسم ہم اسی غرض سے بیٹھے ہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے اس وجہ سے تم سے قسم نہیں اٹھوائی کہ مجھے تم پر شک ہے۔ بلکہ میرے پاس جبرائیل علیہ السلام آئے اور انھوں نے مجھے بتایا کہ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے تم پر فخر کر تے ہیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
هذا الحديث من الأحاديث التي تدل على فضيلة الاجتماع على ذكر الله -عز وجل-، وهو ما رواه أبو سعيد الخدري عن معاوية -رضي الله عنهما- أنه خرج على حلقة في المسجد فسألهم على أي شيء اجتمعوا، فقالوا: نذكر الله، فاستحلفهم -رضي الله عنه- أنهم ما أرادوا بجلوسهم واجتماعهم إلا الذكر، فحلفوا له، ثم قال لهم: إني لم أستحلفكم تهمة لكم وشكًّا في صدقكم، ولكني رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- خرج على قوم وذكر مثله، وأخبرهم أن الله -عز وجل- يباهي بهم الملائكة، فيقول مثلا: انظروا إلى عبادي اجتمعوا على ذكري، وما أشبه ذلك، مما فيه المباهاة، ولكن ليس هذا الاجتماع أن يجتمعوا على الذكر بصوت واحد، ولكن يذكرون أي شيء يذكرهم بالله -تعالى- من موعظة وذكرى أو يتذكرون نعمة الله عليهم بما أنعم عليهم من نعمة الإسلام وعافية البدن والأمن، وما أشبه ذلك، فإن ذكر نعمة الله من ذكر الله -عز وجل-، فيكون في هذا دليل على فضل جلوس الناس ليتذاكروا نعمة الله عليهم.
740;ہ حدیث ان احادیث میں سے ایک ہے جو اللہ عز و جل کے ذکر کے لیے جمع ہونے کی فضیلت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس حدیث کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ وہ مسجد میں لگے ایک حلقے کے پاس آئے اور ان لوگوں سے پوچھا کہ وہ کس لیے جمع ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہم جمع ہو کر اللہ کا ذکر کر رہے ہیں۔ معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے اس بات پر قسم اٹھوائی کہ وہ اللہ کا ذکر کرنے کے لیے بیٹھے ہیں اور صرف اسی مقصد کے لیے جمع ہوئے ہیں۔ اس بات پر انھوں نے قسم اٹھا لی۔ پھر امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا کہ میں نے تم سے اس وجہ سے قسم نہیں اٹھوائی کہ مجھے تمہاری سچائی میں کچھ شک تھا بلکہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ کچھ لوگوں کے پاس آئے اور ان سے پوچھا کہ وہ کس لیے جمع ہیں؟ انھوں نے کہا کہ ہم جمع ہو کر اللہ کا ذکر کر رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے ان سے اسی طرح قسم اٹھوائی تو انھوں نے قسم کھا لی۔ آپ ﷺ نے انہیں بتایا کہ اللہ عز و جل ان پر فرشتوں کے سامنے فخر کر تا ہے، مثلاً وہ کہتا ہے: میرے بندوں کو دیکھوکہ وہ میرا ذکر کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں یا ایسی ہی کوئی اور بات کہتا ہے جس سے اظہارِ فخر ہوتا ہے۔ لیکن جیسا کہ ہم نے پہلے ذکر کیا کہ یہ کوئی ایسا اجتماع نہیں تھا جس میں وہ یک آواز ہو کر ذکر کرنے کے لیے جمع ہوئے ہوں بلکہ وہ ہر اس چیز کا ذکر کر رہے تھے جو انہیں اللہ کی یاد دلاتی جیسے کوئی نصیحت و موعظت یا پھر اللہ نے انھیں جس نعمت اسلام، جسمانی عافیت اور امن سے نوازا تھج، اسے یاد کر رہے تھے۔ اللہ کی کسی نعمت کا ذکر کرنا خود اللہ عز و جل کا ذکر کرنا ہے۔ اس حدیث میں لوگوں کا اکٹھے ہو کر آپس میں ان پر ہونے والی اللہ کی نعمتوں کا ذکر کرنے کی فضیلت کا بیان ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3007

 
 
Hadith   87   الحديث
الأهمية: كان نبي الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أمسى قال: أمسينا وأمسى الملك لله، والحمد لله، لا إله إلا الله وحده لا شريك له


Tema:

جب شام ہوتی، تو نبی ﷺ یہ دعائیہ کلمات کہتے: "أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ"

عن عبد الله بن مسعود-رضي الله عنه- قال: كان نبي الله -صلى الله عليه وسلم- إذا أمسى قال: «أمسينا وأمسى الملك لله، والحمد لله، لا إله إلا الله وحده لا شريك له» قال الراوي: أَرَاهُ قال فِيهِنَّ: «له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير، ربِّ أسألك خير ما في هذه الليلة وخير ما بعدها، وأعوذ بك من شر ما في هذه الليلة وشر ما بعدها، رب أعوذ بك من الكسل، وسُوءِ الكِبَرِ، رب أعوذ بك من عذاب في النار، وعذاب في القبر»، وإذا أصبح قال ذلك أيضا «أصبحنا وأصبح الملك لله».
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب شام ہوتی، تو نبی ﷺ یہ دعائیہ کلمات کہتے: "أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ"
ترجمہ: ہم نے شام کی اور اللہ کی بادشاہت کو دوام حاصل رہا۔ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں اور اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ وہ اکیلا ہے، اُس کا کوئی شریک نہیں۔
راوی کہتے ہیں کہ میرے خیال میں آپ ﷺ ان کے ساتھ یہ کلمات بھی کہتے: "لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، ربِّ أَسْأَلُكَ خَيْرَ مَا فِي هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَخَيْرَ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ هَذِهِ اللَّيْلَةِ وَشَرِّ مَا بَعْدَهَا، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْكَسَلِ وَسُوءِ الْكِبَرِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ عَذَابِ النَّارِ، وَعَذَابِ الْقَبْرِ "۔
ترجمہ: بادشاہی اسی کی ہے اور ہر قسم کی حمد بھی اُسی کے لیے ہے اور وہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ اے میرے رب! میں تجھ سے اِس رات کی بھلائی چاہتا ہوں اور اُس کی بھی جو اس کے بعد ہے۔ اور اس رات کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور اُس سے بھی جو اس کے بعد ہے۔ اے رب! میں سستی سے اور بڑھاپے کی برائی سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔ اے رب ! میں جہنم اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
اور جب صبح کرتے، تو بھی یہی دعا پڑھتے، لیکن "أَصْبَحْنَا وَأَصْبَحَ الْمُلْكُ لِلَّهِ وَالْحَمْدُ لِلَّهِ" فرماتے۔ترجمہ: ہم نے صبح کی اور اللہ کی بادشاہت کو دوام رہا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان من هديه -عليه الصلاة والسلام- عند دخول الصباح والمساء أن يقول هذه الأدعية المباركة، فقوله: (أمسينا وأمسى الملك لله) أي :دخلنا في المساء ودام الملك فيه لله مختصًا به، (والحمد لله) أي: جميع الحمد لله، أي: أمسينا وعرفنا فيه أن الملك لله وأن الحمد لله لا لغيره، (ولا إله إلا الله) أي: منفردًا بالألوهية.
قوله: (رب أسألك من خير هذه الليلة) أي ذاتها وعينها (وخير ما فيها) أي: من خير ما ينشأ ويقع ويحدث فيها وخير ما يسكن فيها، (وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها) أي من الليالي وما فيها من شر يلحق الدين والدنيا.
(اللهم إني أعوذ بك من الكَسَل) أي التثاقل في الطاعة مع الاستطاعة، ويكون ذلك لعدم انبعاث النفس للخير مع ظهور الاستطاعة.
(وسوء الكِبَر) بمعنى الهرم والخرف وكبر السن المؤدي إلى تساقط بعض القوى وضعفها وهو الرد إلى أرذل العمر؛ لأنه يفوت فيه المقصود بالحياة من العلم والعمل، لما يورثه كبر السن من ذهاب العقل، واختلاط الرأي والتخبط فيه، والقصور عن القيام بالطاعة وغير ذلك مما يسوء الحال، وروي بإسكان الباء بمعنى البطر أي الطغيان عند النعمة والتعاظم على الناس، (وعذاب القبر) أي من نفس عذابه أو مما يوجبه.
(وإذا أصبح) أي دخل -صلى الله عليه وسلم- في الصباح (قال ذلك) أي: ما يقول في المساء (أيضًا) أي لكن يقول بدل "أمسينا وأمسى الملك لله" (أصبحنا وأصبح الملك لله) ويبدل اليوم بالليلة فيقول: اللهم إني أسالك من خير هذا اليوم، ويذكر الضمائر بعده.
589;بح وشام کے اوقات میں نبی ﷺ کا معمول تھا کہ آپ ﷺ یہ مبارک دعائیں پڑھا کرتے تھے۔
آپ ﷺ فرماتے: (أَمْسَيْنَا وَأَمْسَى الْمُلْكُ لِلَّهِ): یعنی ہم شام کے وقت میں داخل ہوئے اور اللہ کی بادشاہت کو دوام رہا اور وہ اسی کے لیے خاص ہے۔
(وَالْحَمْدُ لِلَّهِ) یعنی ہم شام میں داخل ہوئے اور تعریف سب کی سب اللہ ہی کے لیے ہے، یعنی شام کے آنے پر ہم نے جان لیا کہ بادشاہت صرف اور صرف اللہ کی ہے اور حمد کا سزاوار بھی صرف وہی ہے۔
(وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ) یعنی الوہیت میں وہ یکتا ہے۔
(رب إني أسألك من خير هذه الليلة) یعنی میں تجھ سے اس رات کی ذات کی بھلائی طلب کرتا ہوں۔
(وخير ما فيها) یعنی ہر اس شے کی بھلائی مانگتا ہوں، جو اس میں وجود میں آتی اور وقوع پذیر ہوتی ہے اور اس میں ٹھہرتی ہے۔
(وأعوذ بك من شرها وشر ما فيها) یعنی راتوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور ان میں دین و دنیا کو لاحق ہونے والے شر سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
(اللهم إني أعوذ بك من الكَسَل) یعنی استطاعت کے ہوتے ہوئے بھی نیکیوں میں سستی سے پناہ چاہتا ہوں۔ ایسا تب ہوتا ہے، جب استطاعت کے با وجود نفس نیکی پر آمادہ نہ ہو۔
(وسوء الكِبَر) یعنی بڑھاپے اور سٹھیا جانے سے پناہ مانگتا ہوں۔ یعنی کبر سنی سے جس کی وجہ سے بعض قوائے جسمانی کام چھوڑ دیتے ہیں اور کمزور پڑ جاتے ہیں اور اس سے انسان عمر کے گھٹیا ترین دور میں پہنچ جاتا ہے: کیوںکہ اس عمر میں مقصد حیات یعنی علم وعمل دونوں چھوٹ جاتے ہیں۔ بڑھاپے کی برائی سے مراد وہ اشیا ہیں جو کبر سنی سے پیدا ہوتی ہیں، جیسے عقل و دماغ کا خراب ہوجانا اور خبط میں مبتلا ہونا، نیک اعمال نہ کر سکنا اور اس طرح کی کسی اور ابتر حالت کا شکار ہونا۔
ایک روایت میں ”الکبر“ باء پر سکون کے ساتھ یہ لفظ آیا ہے۔ اس صورت میں اس کے معنی ہو   ‎   ں گے: نعمت کے حصول پر سرکش ہو جانا اور لوگوں پر بڑائی جتانا۔
(وعذاب القبر) یعنی خود قبر کے عذاب سے یا پھر جن باتوں کی وجہ سے یہ ہوتا ہے، ان سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
(وإذا أصبح) یعنی آپ ﷺ جب صبح کرتے، تو اسی طرح کہتے یعنی وہی کچھ کہتے، جو شام کو کہتے تھے، لیکن ”أمسينا و أمسى الملك لله“ کی بجائے ”أصبحنا و أصبح الملك لله“ کہتے اور ”الليلة“ کو ”اليوم“ سے بدل دیتے اور فرماتے: اللهم إني أسالك من خير هذا اليوم۔ اور اس کے بعد دن کے ضمائر کو ذکر کرتے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3008

 
 
Hadith   88   الحديث
الأهمية: بينما الناس بقباء في صلاة الصبح إذ جاءهم آت، فقال: إن النبي -صلى الله عليه وسلم- قد أنزل عليه الليلة قرآن، وقد أمر أن يستقبل القبلة، فاستقبلوها


Tema:

لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والا ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا کہ آج کی رات نبی ﷺ پر قرآن نازل کیا گیا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ کعبہ کی طرف رخ کریں۔ لہذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کرليں

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: «بَينَمَا النَّاس بِقُبَاء في صَلاَة الصُّبحِ إِذْ جَاءَهُم آتٍ، فقال: إِنَّ النبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- قد أُنزِل عليه اللَّيلةّ قرآن، وقد أُمِرَ أن يَستَقبِل القِبْلَة، فَاسْتَقْبِلُوهَا، وكانت وُجُوهُهُم إلى الشَّام، فَاسْتَدَارُوا إِلى الكَّعبَة».

عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ لوگ مسجد قباء میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والا ان کے پاس آیا، اور اس نے کہا کہ آج کی رات نبیﷺ پر قرآن نازل کیا گیا ہے اور آپ کو حکم دیا گیا ہے کہ کعبہ کی طرف رخ کریں۔ لہذا آپ لوگ بھی کعبہ کی طرف رخ کرليں۔ (اس وقت) ان لوگوں کے چہرے شام کی طرف تھے، تو (يہ سن کر) سب کعبہ کی طرف گھوم گئےـ

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
خرج أحد الصحابة إلى مسجد قباء بظاهر المدينة، فوجد أهله لم يبلغهم نسخ القبلة، ولا زالوا يصلون إلى القبلة الأولى، فأخبرهم بصرف القبلة إلى الكعبة، وأنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- قد أُنزل عليه قرآن في ذلك -يشير إلى قوله تعالى:{ قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ}، [البقرة: 144] وأنه -صلى الله عليه وسلم- استقبل الكعبة، فمن فقههم وسرعة فهمهم وصحته استداروا عن جهة بيت المقدس -قبلتهم الأولى- إلى قبلتهم الثانية، الكعبة المشرفة.
575;يک صحابي مدينہ کے نواح میں مسجد قباء کی طرف گئے تو پتہ چلا کہ وہاں کے لوگوں کواب تک قبلہ کی تبديلی کا علم نہيں ہوا ہے اور وہ لوگ ابھی بھی قبلۂ اول (بيت المقدس) کی طرف رخ کرکے نماز پڑھ رہے ہيں، تو انہيں بتلايا کہ قبلہ کو کعبہ کی طرف پھیر دیا گيا ہے، اور اس بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر قرآن نازل ہوا ہے، صحابی رضی اللہ عنہ کا اشارہ اللہ تعالیٰٰ کے اس فرمان کی طرف تھا: { قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَبِّهِمْ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ}[البقرة: 144] ''ہم آپ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب آپ کو ہم اس قبلہ کی طرف متوجہ کریں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں آپ جہاں کہیں ہوں اپنا منہ اسی طرف پھیرا کریں۔ اہل کتاب کو اس بات کے اللہ کی طرف سے برحق ہونے کا قطعی علم ہے اور اللہ تعالیٰ ان اعمال سے غافل نہیں جو یہ کرتے ہیں۔''(سورہ بقرہ:144) اور یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خانہء کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے۔ لہذا ان لوگوں نے دین کی گہری سمجھ، تيز فہمی اور صحيح فہم کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے پہلے قبلہ بيت المقدس کی طرف سے اپنا رخ موڑ کر اپنے دوسرے قبلہ خانہءکعبہ کی طرف کرليا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3009

 
 
Hadith   89   الحديث
الأهمية: مر النبي -صلى الله عليه وسلم- بقبرين، فقال: إنهما ليعذبان، وما يعذبان في كبير؛ أما أحدهما: فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر: فكان يمشي بالنميمة


Tema:

ایک دفعہ رسول اللہﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا: "ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہاہے اور عذاب بھی کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہا ہے؛ ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: مر النبي -صلى الله عليه وسلم- بقبرين، فقال: «إنهما ليُعذَّبان، وما يُعذَّبان في كبير؛ أما أحدهما: فكان لا يستتر من البول، وأما الآخر: فكان يمشي بالنميمة».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ رسول اللہﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے، تو فرمایا: ”ان دونوں قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور عذاب بھی کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہیں ہو رہاہے؛ان میں سے ایک پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغل خوری کرتا پھرتا تھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
مرَّ النبي -صلى الله عليه وسلم-، ومعه بعض أصحابه بقبرين، فكشف الله -سبحانه وتعالى- له عن حالهما، وأنهما يعذبان، فأخبر أصحابه بذلك؛ تحذيراً لأمته وتخويفاً، فإنَّ صاحبي هذين القبرين، يعذَّب كل منهما بذنب  تركُه والابتعادُ عنه يسيرٌ على من وفقه الله لذلك.
فأحَدُ المعذَّبَيْن كان لا يحترز من بوله عند قضاء الحاجة، ولا يتحفّظ منه، فتصيبه النَجاسة فتلوث بدنه وثيابه ولا يستتر عند بوله، والآخر يسعى بين الناس بالنميمة التي تسبب العداوة والبغضاء بين الناس، ولاسيما الأقارب والأصدقاء، يأتي إلى هذا فينقل إليه كلام ذاك، ويأتي إلى ذاك فينقل إليه كلام هذا؛ فيولد بينهما القطيعة والخصام. والإسلام إنما جاء بالمحبة والألفة بين الناس وقطع المنازعات والمخاصمات.
ولكن الكريم الرحيم -صلى الله عليه وسلم- أدركته عليهما الشفقة والرأفة، فأخذ جريدة نخل رطبة، فشقَّها نصفين، وغرز على كل قبر واحدة، فسأل الصحابة النبي -صلى الله عليه وسلم- عن هذا العمل الغريب عليهم، فقال: لعل الله يخفف عنهما بشفاعتي ما هما فيه في العذاب، ما لم تيبس هاتان الجريدتان، أي مدة بقاء الجريدتين رطبتين، وهذا الفعل خاص به -صلى الله عليه وسلم-.
606;بی کریم ﷺ اپنے بعض صحابہ کے ساتھ دو قبروں کے پاس سے گزر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کو ان کے حالات سے آگاہ فرما دیا کہ ان کو عذاب ہو رہا ہے۔ آپﷺ نے اپنی امت کو متنبہ کرنے اور ڈرانے کے لیے صحابہ کو بتادیا کہ ان دو قبر والوں کو عذاب ہو رہا ہے اور جن گناہوں کی وجہ سے عذاب ہو رہا ہے، اللہ کی توفیق سے ان کو چھوڑنا اور ان سے بچنا بھی چنداں مشکل نہیں۔
ان میں سے ایک کو عذاب اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ قضائے حاجت کے وقت پیشاب کے چھینٹوں سےاجتناب نہیں کرتا تھا۔ چنانچہ پیشاب کی نجاست سے اس کے کپڑے اور بدن آلودہ ہو جاتے تھے، نیز پیشاب کرتے وقت پردہ نہیں کرتا تھا۔ جب کہ دوسرا شخص لوگوں میں چغلی کرتا پھرتا تھا، جو لوگوں بالخصوص رشتے داروں اور دوستوں کے درمیان عداوت اور دشمنی کا سبب بنتی تھی۔ اس کے پاس آتا تو اس کی باتیں بتاتا اور اس کے پاس جاتا تو اس کی باتیں بتاتا؛ اس طرح ان کے درمیان قطع تعلقی اور جھگڑا پیدا کرتا۔ جب کہ اسلام لوگوں کے درمیان الفت و محبت پیدا کرنے اور تنازع و جھگڑے کو ختم کرنے کے لیے آیا ہے۔
رحم وکرم کے پیکر نبیﷺ کو ان پر شفقت اور رحم آیا۔ چنانچہ کھجور کی ایک تر شاخ پکڑی، اسے چیر کر دو حصے کیے اور دونوں قبروں پر گاڑ دیا۔ صحابہ نے نبی کریم ﷺ سے اس عجیب وغریب عمل کے بارے پوچھا تو آپﷺ نے فرمایا کہ شاید میری سفارش کی وجہ سے ان پر ہونے والے عذاب میں اللہ تعالیٰ اس وقت تک تخفیف فرما دے، جب تک یہ خشک نہیں ہو جاتیں۔ یعنی جب تک ان میں تری باقی رہے۔ واضح رہے کہ یہ فعل رسول اللہ ﷺ کے ساتھ خاص ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3010

 
 
Hadith   90   الحديث
الأهمية: إذا أراد الله بالأمير خيرا، جعل له وزير صدق، إن نسي ذكره، وإن ذكر أعانه، وإذا أراد به غير ذلك جعل له وزير سوء، إن نسي لم يذكره، وإن ذكر لم يعنه


Tema:

جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُسے راست باز (خیر خواہ) وزیر عطا کر دیتا ہے۔ وہ اگر بُھولتا ہےتو وہ (وزیر) اُسے یاد کرا دیتا ہے۔ اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وه اس کی مدد کرتا ہے۔ اور جب اللہ اس کے ساتھ بھلائی کے علاوہ كسی اور بات (برائی) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیے بُرا وزیر مقرر کر دیتا ہے۔ اگر وہ بھول جائے تو اسے یاد نہیں کراتا، اور اگر اسے یاد ہو تو اُس کی مدد نہیں کرتا۔

عن عائشة -رضي الله عنها- مرفوعًا: «إِذَا أَرَادَ اللهُ بِالأمِيرِ خَيرًا، جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ صِدقٍ، إِنْ نَسِيَ ذَكَّرَهُ، وَإِنْ ذَكَرَ أَعَانَهُ، وَإِذَا أَرَادَ بِهِ غَيرَ ذَلِكَ جَعَلَ لَهُ وَزِيرَ سُوءٍ، إِنْ نَسِيَ لَمْ يُذَكِّرهُ، وَإِنْ ذَكَرَ لَمْ يُعِنْهُ».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُسے راست باز (خیر خواہ) وزیر عطا کر دیتا ہے۔ وہ اگر بُھولتا ہےتو وہ (وزیر) اُسے یاد کرا دیتا ہے۔ اور اگر حاکم کو یاد ہو تو وه اس کی مدد کرتا ہے۔ اور جب اللہ اس کے ساتھ بھلائی کے علاوہ كسی اور بات (برائی) کا اِرادہ فرماتا ہے تو اُس کے لیے بُرا وزیر مقرر کر دیتا ہے۔ اگر وہ بھول جائے تو اسے یاد نہیں کراتا، اور اگر اسے یاد ہو تو اُس کی مدد نہیں کرتا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين رسول الله -صلى الله عليه وسلم- في هذا الحديث أنّ الله تعالى: "إذا أراد  بالأمير خيراً"، وفسِّرت هذه الخيرية لمن وُفِّق لوزير صدق من الأمراء بخيرية التوفيق لخيري الدارين، كما فسرت هذه الخيرية بالجنة.
وقوله: "جعل له وزير صدق" أي في القول والفعل، والظاهر والباطن، وأضافه إلى الصدق؛ لأنَّه الأساس في الصُحبة وغيرها.
فــ"إن نسي" أي: هذا الأمير، فإن نسي ما يحتاج إليه -والنسيان من طبيعة البشر-، أو ضلّ عن حكم شرعي، أو قضية مظلوم، أو مصالح لرعية، "ذكَّره" أي: هذا الوزير الصادق وهداه.
"وإن ذكر" الأمير ذلك، "أعانه" عليه بالرأي والقول والفعل.
608;أما قوله: "وإذا أراد به غير ذلك" أي: غير الخير، بأن أراد به شرّاً، كانت النتيجة "جعل له وزير سوء" والمراد: وزير سوء في القول، والفعل، نظير ما سبق في ضده.
"إن نسي" أي: ترك مالا بد منه "لم يذكِّره" به؛ لأنه ليس عنده من النور القلبي ما يحمله على ذلك.
"وإن ذكر لم يعنه" بل يسعى في صرفه عنه؛ لشرارة طبعه، وسوء صنعه.


رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب اللہ کسی حاکم کے ساتھ خیر کا ارادہ کرتا ہے“۔ اس حدیث میں ارادے سے مراد کونی و قدری ارادہ ہے۔ اسی لیے اس میں خیر و شر دونوں ہی اقسام کے ساتھ تعلق کا ذکر ہوا ہے؛ کیونکہ اللہ اسے کبھی پسند کرتا ہے اور کبھی ناپسند کرتا ہے۔ یہ ارادہ اپنی وسعت کے ذریعے شرعی ارادے کو بھی شامل ہے جسے اللہ پسند کرتا ہے۔ حکمرانوں میں سے جسے راست باز و خیر خواہ وزیر مل جائے اس کو ملنے والی اس خیر کی تفسیر دونوں جہانوں کی بھلائی کی توفیق ملنے سے کی گئی ہے، اسی طرح اس خیر کی تفسیر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مراد جنت ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "اللہ راست باز وزیر عطا کر دیتا ہے۔" یعنی جو قول و فعل اور ظاہر و باطن میں سچا ہوتا ہے۔ وزیر کی اضافت سچ کی طرف کی گئی ہے کیونکہ صحبت وغیرہ میں سچائی ہی بنیاد ہوتی ہے۔
”اگر وہ بھول جائے“۔ یعنی وہ امیراگر اپنی کسی ضرورت کی بات کو بھول جائے – اور بھولنا انسان کی فطرت ہے - ، یا کسی شرعی حکم یا مظلوم کے معاملے یا رعیت کے مفاد کا خیال کرنے سے بھٹک جائے تو ”وہ اس کو یاد دہانی کرا دیتا ہے“۔ یعنی یہ سچا وزیر اسے یاد کرا دیتا ہے اور اس کی راہنمائی کرتا ہے۔
اگر حاکم کو وہ یاد ہو تو پھر رائے اور قول و فعل کے ذریعے سے اس کی مدد کرتا ہے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: ”اگر اللہ کا اس کے علاوہ کسی اور شے کا ارادہ ہو“۔ یعنی خیر کے بجائے کسی اور شے کا ارادہ ہو جیسے کہ شر کا ارادہ ہو۔ آپ ﷺ نے مذکورہ الفاظ کے ساتھ اس کو بیان کیا تا کہ اس بات کی طرف اشارہ ہو کہ شر سے اجتناب کرنے پر ابھارا جا رہا ہے۔ کیونکہ جب آپ ﷺ اس کی قباحت اور شناعت کی وجہ سے اس کے نام یعنی شر کے ذکر سے بھی اجتناب کر رہے ہیں تو اس کے مدلول سے تو بطریق اولی اجتناب کرنا چاہیے۔ خیر کے لئے اسم اشارہ "ذلک" استعمال کیا گیا جو کہ بعید کے لئے وضع کیا گیا ہے۔ اس میں خیر کی تعظیم اور اس کے علو مرتبت کا بیان ہے اور اسے پانے اورحاصل کرنے پر ابھارا گیا ہے۔
خیر کے علاوہ کے ارادہ کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ”اللہ اس کے لیے برا وزیر مقرر کر دے گا“۔ یعنی ایسا وزیر جو قول و فعل میں برا ہو گا۔ یعنی سابق الذکر وزیر کا الٹا ہو گا۔
”اگر وہ بھول جائے“۔ یعنی کسی ضروری شے کو چھوڑ دے تو ”وہ اسے یاد نہیں کراتا“ کیونکہ اس کے پاس وہ قلبی نور نہیں ہوتا جو اسے اس کام پر ابھارے۔
”اور اگر اسے یاد ہو تو وہ اس کی مدد نہیں کرتا“ بلکہ وہ اپنی فطری برائی اور بد کرداری کی وجہ سے اسے اس سے ہٹانے کی کوشش کرتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3011

 
 
Hadith   91   الحديث
الأهمية: ما بعث الله من نبي، ولا استخلف من خليفة إلا كانت له بطانتان: بطانة تأمره بالمعروف وتحضه عليه، وبطانة تأمره بالشر وتحضه عليه


Tema:

اللہ نے کوئی ایسا نبی اور خلیفہ نہیں بھیجا کہ اس کے مشیر (صلاح کار)دو طرح کے ہوتے ہیں ایک تو وہ جو اسے نیکی اوربھلائی کا حکم دیتے ہیں اور اس پر ابھارتے رہتے ہیں اور دوسرے وہ جو اسے برائی کا حکم دیتے ہیں اوراس پر اسے ابھارتے رہتے ہیں۔

عن أبي سعيد الخدري وأبي هريرة -رضي الله عنهما- مرفوعاً: "ما بعث الله من نبي ولا اسْتَخْلَفَ من خليفة إلا كانت له بطانتان: بطانة تأمره بالمعروف وتَحُضُّهُ عليه، وبطانة تأمره بالشر وتَحُضُّهُ عليه، والمعصوم من عصم الله".

ابوسعید خدری - رضی اللہ عنہ - سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا اور نہ کوئی خلیفہ ایسا بنایا جس کے دو مشیر (قریبی راز دار) نہ ہوں۔ایک مشیر اسے خیر و بھلائی کا حکم دیتا ہے اور دوسرا اسے شر اور برے کام کا حکم دیتا اور اس پر ابھارتا ہے، اور برائیوں سے معصوم و محفوظ تو وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ معصوم و محفوظ رکھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر النبي -عليه الصلاة والسلام- أن الله ما بعث من نبي ولا استخلف من خليفة إلا كان له بطانتان: بطانة خير تأمره بالخير وتحثه عليه، وبطانة سوء تدله على السوء وتأمره به، والمحفوظ من تأثير بطانة الشر هو من حفظه الله -تعالى-.
606;بی علیہ الصلاۃ والسلام نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کوئی نبی ایسا نہیں بھیجا اور نہ کوئی خلیفہ ایسا بنایا جس کے دو مشیر (قریبی راز دار) نہ ہوں۔ ایک مشیر اسے خیر و بھلائی کا حکم دیتا ہے اور دوسرا اسے شر اور برے کام کا حکم دیتا اور اس پر ابھارتا ہےاور برائی کے مشیر کی تاثیر سے وہی شخص بچ سکتا ہے جسے اللہ تعالیٰ محفوظ رکھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3012

 
 
Hadith   92   الحديث
الأهمية: إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول


Tema:

جب تم مؤذّن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو تو ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «إِذَا سَمِعتُم المُؤَذِّن فَقُولُوا مِثلَ مَا يَقُول».

ابو سعید رضی اللہ عنہ نے سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”جب تم مؤذّن کو (اذان دیتے ہوئے) سنو تو ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
إذا سمعتم المؤذن للصلاة فأجيبوه، بأن تقولوا مثل ما يقول، جملة بجملة، فحينما يكبر فكبروا بعده، وحينما يأتي بالشهادتين، فأتوا بهما بعده، فإنه يحصل لكم من الثواب ما فاتكم من ثواب التأذين الذي حازه المؤذن، والله واسع العطاء، مجيب الدعاء.
يستثنى من الحديث لفظ: (حي على الصلاة، حي على الفلاح) فإنه يقول بعدها: لا حول ولا قوة إلا بالله.
580;ب تم مؤذّن کو اذان دیتے ہوئے سنو تو اس کا جواب دو بایں طور کہ جملہ بجملہ ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے۔ جب وہ ’’اللہُ اَکبَرْ‘‘ کہے تو اس کے پیچھے پیچھے تکبیر کہو، جب شہادتین کو ادا کرے تو تم بھی اس کے بعد انہیں ادا کرو۔ مؤذّن کو اذان دینے کا جو ثواب حاصل ہوا ہے اور جس سے تم محروم رہے ہو وہ تمہیں بھی حاصل ہو جائے گا۔ اللہ بہت زیادہ دینے والا اور دعا کو قبول کرنے والا ہے۔
اس حدیث (ویسے ہی کہو جیسے وہ کہتا ہے) سے ”حيّ علی الصلاۃ“ اور ”حيّ علی الفلاح“ مستثنی ہیں، اذان کا جواب دینے والا ان کلمات کی جگہ ”لا حول ولا قوّۃ الا باللہ“ کہے گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3013

 
 
Hadith   93   الحديث
الأهمية: كنت مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في سفر، فأهويت لأنزع خفيه، فقال: دعهما؛ فإني أدخلتهما طاهرتين، فمسح عليهما


Tema:

میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ میں آپ ﷺ کے موزے اتارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں رہنے دو، میں نے پاؤں کو ان میں حالت طہارت (وضو) میں داخل کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا ۔

عن المغيرة بن شعبة -رضي الله عنه- قال: ((كُنت مع النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- في سَفَر، فأهْوَيت لِأَنزِع خُفَّيه، فقال: دَعْهُما؛ فإِنِّي أدخَلتُهُما طَاهِرَتَين، فَمَسَح عليهما)).

مغیر بن شعبہ - رضی اللہ عنہ- بیان کرتے ہیں کہ میں ایک سفر میں نبی ﷺ کے ساتھ تھا۔ میں نے آپ ﷺ کے موزے اتارنے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو آپ ﷺ نے فرمایا: انہیں رہنے دو، میں نے پاؤں کو ان میں حالتِ طہارت (وضو) میں داخل کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے موزوں پر مسح فرمایا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان المغيرة -رضي الله عنه- مع النبي -صلى الله عليه وسلم- في أحد أسفاره -وهو سفره في غزوة تبوك-، فلما شرع النبي -صلى الله عليه وسلم- في الوضوء، وغسل وجهه ويديه، ومسح رأسه، أهوى المغيرة إلى خفي النبي -صلى الله عليه وسلم- لينزعهما؛ لغسل الرجلين، فقال النبي -صلى الله عليه وسلم- اتركهما ولا تنزعهما، فإني أدخلت رجلي في الخفين وأنا على طهارة، فمسح النبي -صلى الله عليه وسلم- على خفيه بدل غسل رجليه.
وكذلك الجوارب ونحوها تأخذ حكم الخفين.
605;غیرہ - رضی اللہ عنہ- ایک سفر میں آپ ﷺ کے ہمراہ تھے۔ آپ ﷺ کا یہ سفر غزوۂ تبوک کا سفر تھا۔ جب نبی ﷺ نے وضو کرنا شروع کیا اور آپ ﷺ اپنا چہرہ انوراور اپنے ہاتھ دھو چکے اور آپ ﷺ نے اپنے سر کا مسح کرلیا تو مغیرہ رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ کے موزوں کو اتارنے کے لیے ان کی طرف ہاتھ بڑھایا تاکہ پاؤں دھوئے جا سکیں۔ اس پر نبی ﷺ نے فرمایا: انہیں رہنے دو اور انہیں نہ اتارو۔ میں ںے اپنے پاؤں کو موزوں میں حالت طہارت (وضو) میں داخل کیا تھا۔ پھر آپ ﷺ نے پاؤں کو دھونے کے بجائے اپنے موزوں پرمسح فرمایا۔
جرابوں وغیرہ کا بھی وہی حکم ہے جو موزوں کا ہے۔   --  [صحیح]+ +[یہ حدیث متفق علیہ ہے اور الفاظ بخاری کے ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3014

 
 
Hadith   94   الحديث
الأهمية: إن بلالا يؤذن بليل، فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم


Tema:

بلال رات کو اذان دیتے ہیں۔ چنانچہ تم کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سن لو۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنه- مرفوعاً: «إنَّ بِلالاً يُؤَذِّن بِلَيلٍ، فَكُلُوا واشرَبُوا حتَّى تَسمَعُوا أَذَان ابنِ أُمِّ مَكتُوم».

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: ”بلال رات کو اذان دیتے ہیں۔ چنانچہ تم کھاؤ پیو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم کی اذان سن لو۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان للنبي -صلى الله عليه وسلم- مؤذنان: بلال بن رباح وعبد الله بن أم مكتوم -رضي الله عنهما- وكان ضريرًا، فكان بلال يؤذن لصلاة الفجر قبل طلوع الفجر؛ لأنها تقع وقت نوم ويحتاج الناس إلى الاستعداد لها قبل دخول وقتها، فكان -صلى الله عليه وسلم-  يُنَبِّه أصحابه إلى أن بلالًا -رضي الله عنه- يؤذن بليل، فيأمرهم بالأكل والشرب حتى يطلع الفجر، ويؤذن المؤذن الثاني وهو ابن أم مكتوم -رضي الله عنه- لأنه كان يؤذن مع طلوع الفجر الثاني، وذلك لمن أراد الصيام، فحينئذ يكف عن الطعام والشراب ويدخل وقت الصلاة، وهو خاص بها، ولا يجوز فيما عداها أذان قبل دخول الوقت، واختلف في الأذان الأول لصلاة الصبح، هل يكتفي به أو لابد من أذان ثان لدخول الوقت؟ وجمهور العلماء على أنه مشروع ولا يكتفى به.
606;بی ﷺ کے دو موذن تھے۔ ایک بلال بن رباح رضی اللہ عنہ اور دوسرے عبد اللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ جو کہ نا بینا تھے۔ بلال رضی اللہ عنہ طلوع فجر سے پہلے فجر کی اذان دیا کرتے تھے، کیونکہ فجر کی نماز سونے کے وقت میں پڑتی ہے اور لوگوں کو اس کا وقت ہونے سے پہلے اس کی تیاری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ لھٰذا نبی ﷺ لوگوں کو تنبیہ فرمایا کرتے تھے کہ بلال رضی اللہ عنہ رات ہی کو اذان دے دیتے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ انہیں اس وقت تک کھانے پینے کاحکم دیتے جب تک فجر طلوع نہ ہو جائے اور دوسرے موذن، جو کہ ابن ام مکتوم ہیں، اذان نہ دے دیں، کیونکہ وہ فجر ثانی کے طلوع پر اذان دیا کرتے تھے۔ یہ حکم اس کے لیے ہے جو روزہ رکھنا چاہتا ہے۔ چنانچہ اس وقت وہ کھانے پینے سے رک جائے گا اور اسی پر نماز کا وقت ہو جائے گا۔ یہ صرف نماز فجر کے ساتھ خاص ہے اور اس کے علاوہ دیگر نمازوں میں نماز کا وقت ہونے سے پہلے اذان دینا جائز نہیں ہے۔ صبح کی نماز کی پہلی اذان کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا اسی پر اکتفا کیا جائے گا یا پھر وقت ہونے پر دوسری اذان دینا ضروری ہے؟ جمہور علماء کا مسلک یہی ہے کہ پہلی اذان دینا مشروع ہے اور اس پر اکتفا نہیں کیا جائے گا (بلکہ طلوع فجر ثانی پر دوسری اذان بھی دی جائے گی۔)

 

Grade And Record التعديل والتخريج
 
[صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3015

 
 
Hadith   95   الحديث
الأهمية: ينام الرجل النومة فتقبض الأمانة من قلبه، فيظل أثرها مثل الوكت، ثم ينام النومة فتقبض الأمانة من قلبه، فيظل أثرها مثل أثر المجل


Tema:

آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے قبض کر لی (اٹھالی) جائے گی، چنانچہ اس کا اثر ایک معمولی نشان کی طرح باقی رہ جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی، تو اس کا نشان آبلے کی مانند باقی رہ جائے گا۔

عن حذيفة بن اليمان -رضي الله عنه- قال: حَدَثَنا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- حدِيثَين قَد رَأَيتُ أَحَدَهُما وأنا أنتظر الآخر: حدثنا أنَّ الأمَانة نَزَلَت في جَذر قُلُوب الرِّجال، ثمَّ نزل القرآن فَعَلِموا مِن القرآن، وعَلِمُوا مِن السُنَّة، ثمَّ حدَّثنا عن رفع الأمانة، فقال: «يَنَامُ الرَّجُلُ النَّومَة فَتُقْبَضُ الأَمَانَةُ مِنْ قَلْبِهِ، فَيَظَلُّ أَثَرُهَا مِثلَ الوَكْتِ، ثُمَّ يَنَامُ النَّومَةَ فَتُقبَض الأَمَانَة مِن قَلْبِه، فَيَظَلُّ أَثَرُها مِثل أَثَر المَجْلِ، كَجَمْرٍ دَحْرَجْتَهُ عَلى رِجْلِكَ فَنَفِطَ، فَتَرَاهُ مُنْتَبِراً وَلَيس فِيه شَيء»، ثم أَخَذ حَصَاةً فَدَحْرَجَه على رجله «فَيَصبَح النَّاس يَتَبَايَعُون، فَلاَ يَكَاد أَحَدٌ يُؤَدِّي الأَمَانَةَ حَتَّى يُقَال: إِنَّ فِي بَنِي فُلاَن رَجُلاً أَمِيناً، حَتَّى يُقَال للرَّجُل: مَا أَجْلَدَهُ! مَا أَظْرَفَه! مَا أَعْقَلَه! وَمَا فِي قَلبِه مِثْقَالُ حَبَّة مِن خَرْدَل مِنْ إيمان»، ولَقَد أتى عَلَيَّ زَمَان وما أُبَالي أَيُّكُم بَايعت: لئِن كان مُسلِمًا لَيَرُدَنَّه عَلَيَّ دِينه، وَإِن كان نصرانيا أو يهوديا ليَرُدنَّه عَلَيَّ سَاعِيه، وأَمَّا اليوم فَمَا كُنت أَبَايِعُ مِنكُم إِلاَّ فُلاَنا وفُلاَناً».

حذیفہ بن یمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم سے رسول اللہ ﷺ نے دو باتیں بیان فرمائیں: ان میں سے ایک کو میں نے دیکھ لیا ہے اور دوسری کا میں انتظار کر رہا ہوں۔ آپ ﷺ نے ہم سے بیان کیا کہ: امانت لوگوں کے دلوں کی جڑ (گہرائی) میں اتری (یعنی اسے فطرت کا حصہ بنایا) پھر قرآن کا نزول ہوا اور انہوں نے اسے (یعنی امانت کو) قرآن اور سنت سے جانا۔ پھر آپ ﷺ نے ہم سے امانت کے اٹھ جانے کا حال بیان کیا۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’(اس طرح کہ) آدمی سوئے گا اور امانت اس کے دل سے قبض کر لی (اٹھالی) جائے گی، چنانچہ اس کا اثر ایک معمولی نشان کی طرح باقی رہ جائے گا۔ پھر وہ سوئے گا اور امانت اس کے دل سے نکال لی جائے گی، تو اس کا نشان آبلے کی مانند باقی رہ جائے گا۔ جیسے ایک انگارہ ہو، جسے تو اپنے پیر پر لڑھکائے تو اس سے چھالہ نمودار ہو جائے، چنانچہ تو اسے ابھرا ہوا تو دیکھتا ہے لیکن اس میں کوئی چیز باقی نہیں ہوتی’’۔ پھرآپ ﷺ نے ایک کنکری کو لیا اور (مثال سمجھانے کے لیے) اسے پاؤں پر لڑھکایا۔ ‘‘پس لوگ صبح کے وقت آپس میں خرید وفروخت کرتے ہوں گے لیکن کوئی امانت ادا کرنے کے قریب بھی نہ پھٹکتا ہوگا یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ فلاں شخص کی اولاد میں ایک امانت دار آدمی تھا، حتی کہ آدمی کے متعلق کہا جائے گا کہ: وہ کس قدر مضبوط، کس قدر ہشیار اور کس قدر عقل مند ہے! حالانکہ اس کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہو گا’’۔ (راوی حدیث حذیفہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:) ‘‘بلا شبہ مجھ پر ایک وقت ایسا گزرچکا ہے کہ مجھے یہ پرواہ نہ ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کروں، اس لیے کہ (مجھے یقین ہوتا تھا کہ) اگر مسلمان ہے تو اس کو اس کا دین مجھ پر میری چیز لوٹا دے گا اور اگر عیسائی یا یہودی ہے تو اس کا ذمے دار (نگراں) مجھے میری چیز واپس کر دے گا، لیکن آج میں تم میں سے صرف فلاں فلاں آدمی (یعنی خاص لوگوں) سے خرید وفروخت کرتا ہوں۔‘‘

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يوضح الحديث أنَّ الأمانة تزول عن القلوب شيئاً فشيئا، فإذا زال أول جزء منها زال نوره وخلفه ظلمة كالوَكْت وهو أعراض لون مخالف اللون الذي قبله، فإذا زال شيء آخر صار كالمجل وهو أثر محكم لا يكاد يزول إلا بعد مدة، وهذه الظلمة فوق التي قبلها ثم شبَّه زوال ذلك النور بعد وقوعه في القلب وخروجه بعد استقراره فيه واعتقاب الظلمة إيَّاه بجمر يدحرجه على رجله حتى يؤثر فيها ثم يزول الجمر ويبقى النفط؛ وأخذه الحصاة ودحرجته إياها أراد به زيادة البيان والإيضاح.
(فيصبح الناس) بعد تلك النومة التي رفع فيها الأمانة (يتبايعون فلا يكاد) أي: يقارب (أحد) منهم (يؤدي الأمانة) فضلاً عن أدائها بالفعل.
(حتى يقال) لعزة هذا الوصف وشهرة ما يتصف به.
(إن في بني فلان رجلاً أميناً) ذا أمانة.
(حتى يقال للرجل ما أجلده) على العمل (ما أظرفه) من الظرف (ما أعقله) أي: ما أشد يقظته وفطانته (وما في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان) فضلاً عن الأمانة التي هي من شعبه.
(ولقد أتى عليّ زمان وما أبالي أيكم بايعت) أي: لا أبالي بالذي بايعته لعلمي بأن الأمانة لم ترتفع وأن في الناس وفاء بالعهد، فكنت أقدم على مبايعة من لقيت غير باحث عن حاله وثوقاً بالناس وأمانتهم.
(وأما اليوم) فقد ذهبت الأمانة إلا القليل فلذا قال:
(فما كنت أبايع منكم إلا فلاناً وفلاناً) يعني أفراداً أعرفهم وأثق بهم.
740;ہ حديث وضاحت کرتی ہے کہ امانت لوگوں کے دلوں سے دھيرے دھيرے ختم ہو جائے گی۔ جب پہلی بار امانت کا کچھ حصہ ختم ہوگا تو اس کا نور ختم ہوجاے گا اور اس کی جگہ داغ کی طرح ایک دھندلا سا نشان رہ جائے گا یعنی پہلے رنگ کے برخلاف دوسرا رنگ چڑھ جائے گا۔ اور جب امانت کا کچھ اور حصہ ختم ہوگا تو اس کا نشان آبلہ کی طرح باقی رہے گا، اوریہ ایسا مستحکم نشان ہے جو کچھ مدت کے بعد ہی ختم ہو گا، اور يہ تاريکی پہلے والی تاريکی کے اوپر ہوگی، پھر اس نور کے دل ميں پيدا ہونے کے بعد زائل ہونے کو، اور اس کے دل ميں جگہ بنانے کے بعد اس سے نکل جانے اور اس کی جگہ تاريکی کے لے لینے کو، اس انگارہ سے تشبيہ دی گئی ہے جس کو آدمی اپنے پیر پر لڑھکائے يہاں تک کہ اس کے پیر ميں اثر انداز ہونے کے بعد وہ چنگاری ٗختم ہو جائے اورصرف داغ باقی رہ جائے، اور آپ ﷺ کا کنکری لے کر اسے لڑھکانے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے لیے یہ بات خوب واضح ہو جائے۔
(فيصبح الناس) اس نيند کے بعد جس ميں امانت اٹھا لی جاے گی (لوگ آپس میں خرید وفروخت کریں گے) تو کوئی بھی شخص امانت کے قریب بھی نہ پھٹکے گا، چہ جائے کہ وہ عملاً امانت کی ادائیگی کرے۔
(یہاں تک کہ کہا جائے گا) امانت کی برتری اور جو اس وصف سے متصف ہوگا اس کی شہرت کے لیے۔
(بے شک فلاں شخص کی اولاد میں سے ایک آدمی امین تھا) یعنی امانت دار تھا۔
(یہاں تک کہ آدمی کے متعلق کہا جائے گا کہ: وہ کس قدر مضبوط ہے) عمل میں، (کس قدر ہشیار ہے) بمعنی مہارت و ہوشیاری اور (کس قدر عقل مند ہے) یعنی وہ انتہائی ذہین و فطین شخص ہے۔ (جب کہ اس کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہوگا) چہ جائے کہ اس کے اندر مانت پائی جائے جو کہ ایمان کی شاخوں میں سے ہے۔
(بلا شبہ مجھ پر ایک وقت ایسا گزر چکا ہے کہ مجھے یہ پرواہ نہ ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کروں) یعنی مجھے اس بات کی پرواہ نہیں ہوتی تھی کہ میں کس سے خرید و فروخت کر رہا ہوں کيوں کہ مجھے معلوم تھا کہ امانت ابھی ختم نہیں ہوئی ہے اور یہ کہ لوگ وفادار ہیں، تو جس سے بھی ملاقات ہوتی اس کے حالات کی چھان بین کیے بغیر اس سے خرید و فروخت کر لیتا تھا اس لیے کہ لوگوں کے اندر امانت و دیانت عام تھی۔
(اور رہا آج کا وقت) تو امانت داری بہت کم باقی بچی ہے اسی لیے آپ نے کہا:
(میں تم میں سے صرف فلاں فلاں آدمی سے خرید وفروخت کرتا ہوں) یعنی چند افراد سے خرید و فروخت کرتا ہوں جنہیں میں پہچانتا ہوں اور جن پر مجھے بھروسہ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3016

 
 
Hadith   96   الحديث
الأهمية: إذا أحب الرجل أخاه فليخبره أنه يحبه


Tema:

جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہو، تو اسے بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔

عن أبي كريمة المقداد بن معد يكرب -رضي الله عنه- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «إِذَا أَحَبَّ الرَّجُلُ أَخَاهُ، فَلْيُخْبِرْهُ أَنَّهُ يُحِبُّهُ».

ابو کریمہ مقداد بن معدیکرب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب کوئی آدمی اپنے بھائی سے محبت کرتا ہو، تو اسے بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
دعت أحاديث كثيرة إلى التحابب في الله -تعالى-، وأخبرت عن ثوابه، وهذا الحديث يشير إلى معنى مهم يُحْدِث الأثر الأكبر في علاقة المؤمنين بعضهم ببعض، كما  ينشر المحبة، وهو أن يخبر أخاه أنه يحبه، وهذا يفيد المحافظة على البناء الاجتماعي من عوامل التفكك والانحلال؛ وهذا من خلال إشاعة المحبة بين أفراد المجتمع الإسلامي، وتقوية الرابطة الاجتماعية بالأخوة الإسلامية، وهذا كله يتحقق بفعل أسباب المحبة كتبادل الإخبار بالمحبة بين المتحابين في الله -تعالى-.
575;یک دوسرے سے محبت رکھنے کی ترغیب بہت سی احادیث میں دی گئی ہے اور اس کے ثواب کے بارے میں بتایا گیا ہے۔ یہ حدیث ایک اہم بات کی طرف اشارہ کرتی ہے، جس کا مؤمنوں کے باہمی تعلقات پر گہرا اثر مرتب ہوتا ہے اور باہمی محبت کو فروغ ملتا ہے۔ وہ بات یہ ہے کہ آدمی اپنے بھائی کو بتا دے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے۔ اس سے معاشرے کی عمارت ٹوٹ پھوٹ اور بگاڑ سے محفوظ ہو جاتی ہے۔ یہ سب کچھ اسلامی معاشرے کے افراد کے مابین محبت کو فروغ دے کر اور اسلامی بھائی چارے کے ذریعے اجتماعی معاشرتی تعلق کو مضبوط بنا کر ممکن ہے۔ یہ سب تب ہوتا ہے، جب محبت کے اسباب کو اختیار کیا جائے، مثلا اللہ کی خاطر دو محبت کرنے والوں کا ایک دوسرے کو بتادینا کہ وہ باہم محبت کرتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3017

 
 
Hadith   97   الحديث
الأهمية: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يعجبه التيمن في تنعله، وترجله، وطهوره، وفي شأنه كله


Tema:

رسول اللہ ﷺ جوتا پہننے، کنگھی کرنے، حصول طہارت، اور اپنے تمام کاموں میں دائیں طرف سے آغاز کرنے کو پسند فرماتے تھے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: «كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يعجبه التيمُّن في تَنَعُّلِّه, وترجُّلِه, وطُهُورِه, وفي شَأنه كُلِّه».

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے وہ کہتی ہیں: ”رسول اللہ ﷺ جوتا پہننے، کنگھی کرنے، حصول طہارت، اور اپنے تمام کاموں میں دائیں طرف سے آغاز کرنے کو پسند فرماتے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
تخبرنا عائشة -رضي الله عنها- عن عادة النبي -صلى الله عليه وسلم- المحببة إليه، وهى تقديم الأيمن في لبس نعله، ومشط شعره، وتسريحه، وتطهره من الأحداث، وفى جميع أموره التي من نوع ما ذكر كلبس القميص والسراويل، والنوم، والأكل والشرب ونحو ذلك.
كل هذا من باب التفاؤل الحسن وتشريف اليمين على اليسار.
وأما الأشياء المستقذرة فالأحسن أن تقدم فيها اليسار؛ ولهذا نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن الاستنجاء باليمين، ونهى عن مس الذكر باليمين، لأنها للطيبات، واليسار لما سوى ذلك.
593;ائشہ رضی اللہ عنہا ہمیں نبی ﷺ کی ایک پسندیدہ عادت کے بارے میں بتلا رہی ہیں کہ آپ ﷺ اپنے جوتے پہننے، اپنے بالوں میں کنگھی کرنے اور انہیں سنوارنے میں اور ناپاکی سے طہارت حاصل کرنے میں اور مذکورہ قسم کے اپنے تمام کاموں جیسے قیمض اور پاجاما پہنتے، سونے، کھانے پینے اور اسی طرح کے دیگر امور میں دائیں طرف کو مقدم رکھتے تھے۔ یہ سب کچھ اچھے شگون اور دائیں طرف کو بائیں پر عزت دینے کے قبیل سے ہے۔ غیر پاکیزہ چیزوں میں بہتر یہ ہے کہ بائیں طرف کو مقدم رکھا جائے۔ اسی لئے نبی ﷺ نے دائیں ہاتھ سے استنجاء کرنے اور عضوِ مخصوص کو چھونے سے منع فرمایا ہے کیونکہ دایاں ہاتھ پاکیزہ اشیاء کے لئے ہے اور ان کے علاوہ دیگر اشیاء کے لئے بایاں ہاتھ ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3018

 
 
Hadith   98   الحديث
الأهمية: كانت يد رسول الله -صلى الله عليه وسلم- اليمنى لطهوره وطعامه، وكانت اليسرى لخلائه وما كان من أذى


Tema:

رسول اللہ ﷺ کا دایاں ہاتھ وضو اور کھانا کھانے کے لیے اور بایاں ہاتھ قضائے حاجت اور ان چیزوں کے لیے ہوتا تھا جن میں گندگی ہوتی ہے۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: "كَانَت يَدُ رسُولِ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- اليُمنَى لِطُهُورِهِ وطَعَامِهِ، وكَانَت اليُسْرَى لِخَلاَئِهِ، ومَا كَانَ مِنْ أَذَى".
عن حفصة -رضي الله عنها- "أَنَّ رَسُولَ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- كَانَ يَجْعَلُ يَمِينَهُ لِطَعَامِهِ وَشَرَابِهِ وَثِيَابِهِ، وَيَجْعَلُ يَسَارَهُ لِمَا سِوَى ذَلِك".

اُم المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتے ہوئے بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کا دایاں ہاتھ وضو اور کھانا کھانے کے لیے اور بایاں ہاتھ قضائے حاجت اور ان چیزوں کے لیے ہوتا تھا جن میں گندگی ہوتی ہے۔
ام المومنین حفصہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ اپنے داہنے ہاتھ کو کھانے، پینے اور کپڑے پہنے کے لیے استعمال کرتے اور بائیں ہاتھ کو اس کے علاوہ کاموں کے لیے استعمال کرتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
بيَّنت عائشة -رضي الله عنها-، ما كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يستعمل فيه اليمين، وما كان يستعمل فيه اليسار، فذكرت أن الذي يستعمل فيه اليسار ما كان فيه أذى؛ كالاستنجاء، والاستجمار، والاستنشاق، والاستنثار، وما أشبه ذلك، كل ما فيه أذى فإنه تقدم فيه اليسرى، وما سوى ذلك؛ فإنه تقدم فيه اليمنى؛ تكريمًا لها؛ لأن الأيمن أفضل من الأيسر.   وهذ الحديث داخل في استحباب تقديم اليمنى فيما من شأنه التكريم فقولها -رضي  الله عنها-.
قولها: "لطهوره": يعني إذا تطهر يبدأ باليمين، فيبدأ بغسل اليد اليمنى قبل اليسرى، وبغسل الرجل اليمنى قبل اليسرى، وأما الأذنان فإنهما عضوٌ واحدٌ، وهما داخلان في الرأس، فيمسح بهما جميعًا إلا إذا كان لا يستطيع أن يمسح إلا بيد واحدة، فهنا يبدأ بالأذن اليمنى للضرورة.
قولها: "وطَعَامِهِ": أي تناوله الطعام.
"وكانت يده اليسرى لخلائه": أي لما فيه من استنجاء وتناول أحجار وإزالة أقذار.
"وما كان من أذى" كتنحية بصاق ومخاط وقمل ونحوها.
وحديث حفصة مؤكد لما سبق من حديث عائشة، الذي جاء في بيان استحباب البداءة باليمين فيما طريقه التكريم، وتقديم اليسار فيما طريقه الأذى والقذر؛ كالاستنجاء والاستجمار وما أشبه ذلك.
575;م المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا نے وضاحت کی کہ نبی ﷺ کن کاموں میں اپنا دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے اور کن میں بایاں ہاتھ استعمال کیا کرتے تھے۔ کہا جن کاموں میں گندگی ہوتی جیسے استنجاء کرنا، استنجاء میں پتھر کا استعمال، ناک میں پانی ڈالنا اور ناک کو صاف کرنا جیسے کاموں میں جن میں گندگی ہوتی آپ ﷺ بایاں ہاتھ استعمال کیا کرتے تھے۔ اور ان کے علاوہ کاموں میں دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے۔ اس میں دائیں ہاتھ کی تکریم ہے کیونکہ دایاں ہاتھ بائیں سے افضل ہے۔
اس حدیث کی رو سے ان تمام کاموں میں دایاں ہاتھ استعمال کرنا مستحب ہے جو قابلِ تکریم ہوں۔
”لِطُهُورِهِ “ اس کا معنی یہ ہے کہ جب نبی ﷺ طہارت حاصل کرتے تو آپ ﷺ دائیں ہاتھ سے آغاز کرتے۔ چنانچہ آپ ﷺ دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ سے پہلے دھوتے تھے اور اسی طرح آپ ﷺ دائیں پاؤں کو بائیں پاؤں سے پہلے دھویا کرتے تھے۔ جب کہ دونوں کان ایک ہی عضو شمار ہوتے ہیں جو سر کا حصہ ہیں۔ چنانچہ ان کو اکھٹے ہی مسح کیا جائے گا بجز اس کے کہ ایک ہاتھ سے مسح کرنا ہو۔ اس صورت میں ضرورت کے تحت دائیں کان سے مسح کا آغاز کیا جائے گا۔
”وطَعَامِهِ“ یعنی جب آپ ﷺ کھانا کھایا کرتے تھے۔
”وَكَانَت اليُسْرَى لِخَلاَئِهِ “یعنی قضائے حاجت کے وقت استنجاء کرنے، پتھر اٹھانے اور گندگی کے ازالے کے لیے بائیں کو استعمال کرتے تھے۔
”ومَا كَانَ مِنْ أَذَى“جیسے تھوک اور بلغم وغیرہ کو دور کرنے کے لیے۔چیچڑی وغیرہ کو دور کرنا بھی اسی میں آتا ہے۔
حفصہ رضی اللہ عنہا کی حدیث دراصل عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدیث کی تصدیق کر رہی ہے جس میں اس بات کا بیان ہے کہ جو کام قابلِ تکریم ہوتے ان میں آپ ﷺ کا طریقہ کار دائیں ہاتھ کو استعمال کرنا تھا اور جن کاموں میں گندگی کا عمل دخل ہوتا تھا ان کاموں میں آپ ﷺ بایاں ہاتھ استعمال فرماتے تھے جیسے استنجاء کرتے ہوئے یا استنجاء کے لیے پتھر اٹھاتے ہوئے وغیرہ۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3019

 
 
Hadith   99   الحديث
الأهمية: لما قدم رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه مكة قال المشركون: إنه يقدم عليكم قوم وهنتهم حمى يثرب، فأمرهم أن يرملوا الأشواط الثلاثة، وأن يمشوا ما بين الركنين


Tema:

جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ: تمہارے پاس ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ چنانچہ نبی ﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: «لَمَّا قَدِم رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- وأصحابه مكة، فقَال المُشرِكُون: إِنَّه يَقدَمُ عَلَيكُم قَومٌ وَهَنَتهُم حُمَّى يَثرِب، فَأَمَرَهُم النَّبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- أن يَرمُلُوا الأَشوَاطَ الثلاَثَة، وأن يَمشُوا ما بَين الرُّكنَين، ولم يَمنَعهُم أَن يَرمُلُوا الأَشوَاطَ كُلَّها: إلاَّ الإِبقَاءُ عَليهِم».

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ”جب رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ مکہ تشریف لائے تو مشرکوں نے کہا کہ تمہارے پاس ایسے لوگ آئے ہیں جنہیں یثرب (مدینہ منورہ) کے بخار نے کمزور کر دیا ہے۔ چنانچہ نبیﷺ نے حکم دیا کہ طواف کے پہلے تین چکروں میں تیز قدم چلیں اور دونوں یمانی رکنوں کے درمیان حسب معمول چلیں اور آپ ﷺ نے ان پر شفقت و نرمی کرتے ہوئے یہ حکم نہیں دیا کہ سب پھیروں میں رمل کریں۔“

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء النبي -صلى الله عليه وسلم- سنة ست من الهجرة إلى مكة معتمرًا، ومعه كثير من أصحابه، فخرج لقتاله وصده عن البيت كفار قريش، فحصل بينهم صلح، من مواده أن النبي -صلى الله عليه وسلم- وأصحابه يرجعون في ذلك العام، ويأتون في العام القابل معتمرين، ويقيمون في مكة ثلاثة أيام، فجاءوا في السنة السابعة لعمرة القضاء. فقال المشركون، بعضهم لبعض -تشفيا وشماتة-: إنه سيقدم عليكم قوم قد وهنتهم وأضعفتهم حمى يثرب.
فلما بلغ النبي -صلى الله عليه وسلم- قولهم، أراد أن يرد قولهم ويغيظهم، فأمر أصحابه أن يسرعوا إلا فيما بين الركن اليماني والركن الذي فيه الحجر الأسود فيمشوا، رفقًا بهم وشفقة عليهم، حين يكونوا بين الركنين لا يراهم المشركون، الذين تسلقوا جبل "قعيقعان" لينظروا إلى المسلمين وهم يطوفون فغاظهم ذلك حتى قالوا: إن هم إلا كالغزلان، فكان هذا الرمل سنة متبعة في طواف القادم إلى مكة، تذكرا لواقع سلفنا الماضين، وتأسيًا بهم في مواقفهم الحميدة، ومصابرتهم الشديدة، وما قاموا به من جليل الأعمال، لنصرة الدين، وإعلاء كلمة الله، رزقنا الله اتباعهم واقتفاء أثرهم.
 والمشي بين الركنين وترك الرمل منسوخ؛ لنه في حجة الوداع رمل من الحجر إلى الحجر، روى مسلم عن جابر وابن عمر -رضي الله عنهم- «أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رمل من الحجر إلى الحجر ثلاثًا، ومشى أربعًا».
606;بی ﷺ ہجرت کے چھٹویں سال صحابہ کی کثیر تعداد کے ہمراہ عمرہ کی نیت سے مکہ آئے، تو کفار قریش آپ سے لڑنے اور آپ کو اللہ کے گھر سے روکنے کے لئے نکلے، چناں چہ ان کے درمیان صلح ہوئی جس کے مضمون میں یہ تھا کہ نبی ﷺ اس سال اپنے اصحاب کے ہمراہ واپس لوٹ جائیں اور اگلے سال عمرہ کی نیت سے آئیں اور مکہ میں صرف تین دن تک قیام کریں، چناں چہ سن سات ھجری میں جب وہ دوبارہ عمرہ کی قضا کے لئے آئے تو مشرکین نے -تسکین خاطر اور بطور ہنسی اور ٹھٹھا- آپس میں ایک دوسرے سے کہنا شروع کیا کہ تمہارے پاس ایسے لوگ آرہے ہیں جنہیں یثرب کے بخار نےتوڑ دیا اور کمزور بنا دیا ہے۔
جب نبی ﷺ کو ان کی یہ بات پہونچی تو آپ ﷺ نےان کے جواب میں اور ان کو برانگیختہ کرنے کے لئے اپنے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ تیز چلیں مگر رکن یمانی اور حجر اسود کے درمیانی حصہ میں عام چال چلیں۔ یہ حکم صحابہ کے ساتھ نرمی اور شفقت کے باب سے تھا جب کہ وہ دونوں رکنوں کے درمیان ہوں اور وہ مشرکین انہیں نہ دیکھ سکیں جو"قعيقعان" نامی پہاڑ پر اس لئے چڑھ آئے تھے کہ وہ مسلمانوں کو طواف کرتے ہوئےدیکھ سکیں۔ لیکن تیز چال نے انہیں آگ بگولہ کردیا اور وہ یہاں تک کہنے لگے کہ یہ سب تو ہرن کے مانند ہیں۔ اس طرح دلکی چال طوافِ قدوم میں سنت جاریہ قرار پائی۔ تاکہ اپنے گزرے ہوئے اسلاف کے واقعہ کو یاد کیا جائے اور ان کے قابل تعریف مواقف اور زبردست صبر اور جو کچھ دین کی مدد اور اللہ کے کلمہ کی بلندی کے لئے انہوں نے اچھے کام انجام دئے ہیں ان میں ان کی اقتدا کی جائے۔ اللہ ہمیں ان کی پیروی اور ان کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق بخشے۔
دنوں یمانی رکنوں کے درمیان رمل نہیں کرنے کا حکم منسوخ ہے اس لیے کہ حجۃ الوداع میں نبیﷺ پورا طواف رمل کیے۔ امام مسلم نے جابر اور ابن عمر رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے حجر اسود سے حجر اسود تک طواف کے پہلے تین چکروں میں رمل کیا اور باقی چار چکروں میں اپنی رفتار معمول کے مطابق رکھی۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3020

 
 
Hadith   100   الحديث
الأهمية: يا رسول الله، أيرقد أحدنا وهو جنب؟ قال: نعم، إذا توضأ أحدكم فليرقد


Tema:

یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، جب تم میں سے کوئی وضو کرلے، تو سو سکتا ہے“۔

عن عبد الله بنِ عمر -رضي الله عنهما- أن عمرَ بْن الخطاب -رضي الله عنه- قال: ((يا رسول الله، أّيَرقُدُ أَحَدُنا وهو جُنُب؟ قال: نعم، إِذَا تَوَضَّأ أَحَدُكُم فَليَرقُد)).

عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا: یا رسول اللہ! کیا ہم میں سے کوئی حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہاں، جب تم میں سےکوئی وضو کرلے، تو سو سکتا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- النبي -صلى الله عليه وسلم-: إن أصابت أحدهم الجنابة من أول الليل، بأن جامع امرأته ولو لم ينزل أو احتلم، فهل يرقد أي ينام وهو جنب؟ فأذن لهم -صلى الله عليه وسلم-  بذلك، على أن يخفف هذا الحدث الأكبر بالوضوء الشرعي؛ وحينئذ لا بأس من النوم مع الجنابة.
593;مر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ اگر کسی شخص کو رات کے ابتدائی حصے میں جنابت لاحق ہو جائے، بایں طور کہ اپنی بیوی سے جماع کر لے، اگرچہ انزال نہ ہواہو یا اسے احتلام ہو جائے تو کیا وہ حالت جنابت میں سو سکتا ہے؟ آپ ﷺ نے انھیں اس کی اجازت دے دی، بشرطے کہ وہ شرعی طریقے سے وضو کر کے حدث اکبر کو کچھ کم کر لے۔ اس صورت میں جناب کی حالت میں سونے میں کوئی حرج نہیں ہو گا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3021

 
 
Hadith   101   الحديث
الأهمية: أنَّ رسول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- دخل مكة من كداء، من الثنية العليا التي بالبطحاء، وخرج من الثنية السفلى


Tema:

رسول اللہ ﷺ مکہ میں ثنیہ بالا کے مقام کداء سے جو بطحا میں ہے، داخل ہوئے تھے اور ثنیہ زیریں کی طرف سے باہر نکلے تھے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- «أنَّ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- دَخَل مكَّة مِن كَدَاٍء، مِن الثَنِيَّة العُليَا التِّي بالبَطحَاءِ، وخرج من الثَنِيَّة السُفلَى».

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مکہ میں ثنیہ بالا کے مقام کداء سے جو بطحا میں ہے، داخل ہوئے تھے اور ثنیہ زیریں کی طرف سے باہر نکلے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حجَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- حجة الوداع، فبات ليلة دخوله بـ"ذي طوى" لأربع خلون من ذي الحجة، وفي الصباح دخل مكة من الثنية العليا؛ لأنه أسهل لدخوله؛ لأنه أتى من المدينة، فلما فرغ من مناسكه خرج من مكة إلى المدينة من أسفل مكة، وهي الطريق التي تأتي على "جرول"، ولعل في مخالفة الطريقين تكثيرا لمواضع العبادة، كما فعل -صلى الله عليه وسلم-  في الذهاب إلى عرفة والإياب منها، ولصلاة العيد والنفل، في غير موضع الصلاة المكتوبة؛ لتشهد الأرض على عمله عليها يوم تحدث أخبارها، أو لكون مدخله ومخرجه مناسبين لمن جاء من المدينة، وذهب إليها. والله أعلم.
606;بی ﷺ نے حجۃ الوداع کیا تو ذی الحجہ کی چار تاریخ کو جب آپ ﷺ (مکہ میں) داخل ہوئے تو وہ رات آپ ﷺ نے مقام ذی طوی پر گزاری اور صبح کو آپ ﷺ ثنیہ علیا (بالائی حصے) کی طرف سے مکہ میں داخل ہوئے کیوں کہ اس جگہ سے داخل ہونا آسان ہے اس لیے کہ آپ ﷺ مدینہ سے تشریف لا رہے تھے۔ جب آپ ﷺ مناسک حج سے فارغ ہوئے تو مکہ کے نشیبی علاقے سے ہوتے ہوئے مدینہ کی طر ف نکلے۔ یہ وہ راستہ ہے جو جرول کے مقام سے گزرتا ہے۔ شاید آپ ﷺ نے دو مختلف راستے اس لیے اپنائے تاکہ عبادت کے مقامات کی کثرت ہو جیسا کہ آپ ﷺ نے عرفہ جاتے اور وہاں سے واپس آتے ہوئے کیا یا جیسا آپ ﷺ کا نماز عید اور نوافل میں معمول تھا کہ انھیں آپ فرض نماز کی جگہ کے بجائے دوسری جگہ پر ادا کرتے تھے تاکہ روزِ قیامت جس دن زمین اپنی خبریں دے گی اس دن وہ آپ ﷺ کے عمل کی گواہی دے یا پھر ایسا کرنے کی وجہ یہ تھی کی جس راستے سے آپ داخل ہوئے تھے یا جس راستے سے نکلے تھے وہ مدینے سے آنے اور اس کی طرف جانے والوں کے لیےموزوں ترین تھے۔ واللہ اعلم   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3022

 
 
Hadith   102   الحديث
الأهمية: رَقِيت يومًا على بيت حفصة، فرأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقضي حاجته مستقبل الشام، مستدبر الكعبة


Tema:

میں ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر چڑھا، تو دیکھا کہ نبیﷺ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پشت کرکے قضاے حاجت کر رہے ہیں۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: ((رَقيت يومًا على بيت حفصة، فرَأَيتُ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم-يَقضِي حاجته مُسْتَقبِل الشام، مُسْتَدبِر الكعبة)).

وفي رواية: ((مُسْتَقبِلا بَيتَ المَقدِس)) .


عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: میں ایک دن حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر پر چڑھا، تو دیکھا کہ نبیﷺ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پشت کر کے قضاے حاجت کر رہے ہیں“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”بیت المقدس کی طرف منہ کر کے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكر ابن عمر -رضي الله عنهما-: أنه جاء يوماً إلى بيت أخته حفصة، زوج النبي -صلى الله عليه وسلم-، فصعد فوق بيتها، فرأى النبي -صلى الله عليه وسلم-، يقضى حاجته وهو متَجه نحو الشام، ومستدبر القبلة.
وكان ابن عمر -رضي الله عنه- قال ذلك ردًّا على من قالوا: إنه لا يستقبل بيت المقدس حال قضاء الحاجة، ومن ثمَّ أتى المؤلف بالرواية الثانية: مستقبلا بيت المقدس.
فإذا استقبل الإنسان القبلة داخل البنيان فلا حرج.
575;بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ وہ ایک دن اپنی بہن اور نبی ﷺ کی زوجہ حفصہ رضی اللہ عنہ کے گھر آئے۔ جب گھر کی چھت پرچڑھے، تو نبی ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ شام کی طرف رخ اور قبلے کی طرف پیٹھ کرکے قضاے حاجت کر رہے ہیں۔
ابن عمر رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں کے رد میں یہ حدیث سنائی، جن کا کہنا تھا کہ قضاے حاجت کے دوران بیت المقدس کی طرف رخ نہیں کرنا چاہیے۔ اسی لیے مولف نے دوسری روایت بھی ذکر کی جس میں "بیت المقدس کی طرف منہ کیے ہوئے" کے الفاظ ہیں۔
چنانچہ اگر انسان عمارت کے اندر قبلہ کی طرف منہ کرکے قضاے حاجت کر لے، تو اس میں کوئی حرج نہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3023

 
 
Hadith   103   الحديث
الأهمية: أنه جاء إلى الحجر الأسود، فقبَّله، وقال: إني لأعلم أنك حجر، لا تضر ولا تنفع، ولولا أني رأيت النبي -صلى الله عليه وسلم- يقبلك ما قبلتك


Tema:

وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اس کا بوسہ لینے کے بعد کہنے لگے: مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے ۔ تو نہ کچھ نقصان دے سکتا ہے اور نہ کوئی نفع۔ اگر میں نے نبی ﷺ کو تمہارا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تمہارا بوسہ نہ لیتا۔

عن عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- «أنَّه جَاء إِلى الحَجَر الأَسوَدِ، فَقَبَّلَه، وقال: إِنِّي لَأَعلَم أَنَّك حَجَرٌ، لا تَضُرُّ ولا تَنفَعُ، ولَولاَ أَنِّي رَأَيتُ النبيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُقَبِّلُك مَا قَبَّلتُك».

عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے بارے میں آتا ہے کہ وہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور اس کا بوسہ لینے کے بعد کہنے لگے: مجھے اچھی طرح سے علم ہے کہ تو ایک پتھر ہے ۔ تو نہ کچھ نقصان دے سکتا ہے اور نہ کوئی نفع۔ اگر میں نے نبی ﷺ کو تمہارا بوسہ لیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا تو میں تمہارا بوسہ نہ لیتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
الأمكنة والأزمنة وغيرها من الأشياء، لا تكون مقدسة معظمة تعظيم عبادةٍ لذاتها، وإنَّما يكون لها ذلك بشرع؛ ولهذا جاء عمر بن الخطاب -رضي الله عنه- إلى الحجر الأسود وقبله بين الحجيج، الذين هم حديثو عهد بعبادة الأصنام وتعظيمها، وبين أنَّه ما قبل هذا الحجر وعظمه من تلقاء نفسه، أو لأن الحجر يحصل منه نفع أو مضرة؛ وإنما هي عبادة تلقَّاها من المشرِّع -صلى الله عليه وسلم-  فقد رآه يقبله فقبله؛ تأسيا واتباعا، لا رأيا وابتداعا.
575;وقات، مقامات اور دیگر اشیاء بذات خود اس قدر مقدس و معظم نہیں ہوتے بایں طور کہ یہ ذاتی طور پر عبادت کی تعظیم کے حقدار ہوں، بلکہ ان کی تعظیم شریعت کی بنا پر ہوتی ہے۔ اسی لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ حجرِ اسود کے پاس آئے اور حاجیوں کے سامنے اس کا بوسہ لیا جنھیں بتوں کی پوجا اور ان کے احترام کو چھوڑے زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اور وضاحت فرمائی کہ اس پتھر کو چومنا اور اس کی تعظیم کرنا ان کی اپنی اپچ نہیں اور نہ ہی اس وجہ سے ہے کہ اس سے کوئی نفع یا نقصان ہوتا ہے بلکہ یہ تو ایک عبادت ہے جسے انھوں نے شارع علیہ السلام سے لیا ہے۔ انھوں نے نبی ﷺ کو ا س کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ کی اقتداء میں انھوں نے بھی اس کا بوسہ لیا نہ کی اپنی ذاتی رائے کی بنا پر یا خود ساختہ طور پر ایسا کیا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3024

 
 
Hadith   104   الحديث
الأهمية: طاف النبي في حجة الوداع على بعير، يستلم الركن بمحجن


Tema:

نبیﷺ حجۃُ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور آپ ﷺ رکن کو چھڑی کے ذریعے بوسہ دے رہے تھے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: «طَافَ النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- فِي حَجَّةِ الوَدَاعِ على بَعِير، يَستَلِم الرُّكنَ بِمِحجَن».

عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ”نبیﷺ حجۃُ الوداع کے موقع پر اونٹ پر سوار ہو کر طواف کیا اور آپ ﷺ رکن کا ایک چھڑی کے ذریعے بوسہ دے رہے تھے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
طاف النبي -صلى الله عليه وسلم- في حجة الوداع، وقد تكاثر عليه الناس: منهم من يريد النظر إلى صفة طوافه، ومنهم من يريد النظر إلى شخصه الكريم؛ فازدحموا عليه، ومن كمال رأفته بأمته ومساواته بينهم: أن ركب على بعير، فأخذ يطوف عليه؛ ليتساوى الناس في رؤيته، وكان معه عصا محنية الرأس، فكان يستلم بها الركن، ويقبل العصا كما جاء في رواية مسلم لهذا الحديث.
606;بی ﷺ نے حجۃُ الوداع کے موقع پر طواف فرمایا۔ آپ ﷺ کے پاس بہت زیادہ لوگ جمع تھے۔ ان میں سے کچھ تو یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ آپﷺ کیسے طواف کر رہے ہیں اور کچھ آپ ﷺ کی کریم ذات کو دیکھنا چاہتے تھے۔ چنانچہ انھوں نے آپ ﷺ کے پاس بھیڑ لگا دیا۔ اپنی امت پر کمالِ شفقت اور ان کے ساتھ مساویانہ سلوک رکھنے کے لیے آپ ﷺ ایک اونٹ پر سوار ہو گیے اور اس پر طواف کرنے لگے تاکہ لوگ یکساں طور پر آپ ﷺ کو دیکھ سکیں۔ آپ ﷺ کے پاس ایک عصا تھا جس کا سرا مڑا ہوا تھا اور آپ ﷺ اس کے ساتھ رکن کو چھو رہے تھے اور عصا ہی کا بوسہ لے رہے تھے جیسا کہ اس حدیث کی مسلم شریف والی روایت میں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3025

 
 
Hadith   105   الحديث
الأهمية: لم أر النبي -صلى الله عليه وسلم- يستلم من البيت إلا الركنين اليمانيين


Tema:

میں نے نبی ﷺ کو بیت اللہ میں سے صرف دونوں یمانی رُکنوں کا استلام کرتے ہوئے دیکھا۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- قال: «لَمْ أَرَ النبِيَّ -صلَّى الله عليه وسلَّم يَستَلمُ- منَ البيتِ إِلا الرُّكنَينِ اليَمَانِيَينِ».

عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی ﷺ کو بیت اللہ میں سے صرف دونوں یمانی رُکنوں کا استلام کرتے ہوئے دیکھا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لم يكن النبي -صلى الله عليه وسلم- يستلم من الأركان الأربعة للكعبة إلا الركن الأسود والركن اليماني، فللبيت أربعة أركان، فللركن الشرقي منها فضيلتان:
1. كونه على قواعد إبراهيم.
2. وكون الحجر الأسود فيه. والركن اليماني له فضيلة واحدة، وهو كونه على قواعد إبراهيم.
وليس للشامي والعراقي شيء من هذا، فإن تأسيسهما خارج عن أساس إبراهيم حيث أخرج الحجر من الكعبة من جهتهما؛ ولهذا فإنه يشرع استلام الحجر الأسود وتقبيله، ويشرع استلام الركن اليماني بلا تقبيل، ولا يشرع في حق الركنين الباقيين استلام ولا تقبيل، والشرع مبناه على الاتباع، لا على الإحداث والابتداع، ولله في شرعه حكم وأسرار.
606;بی ﷺ کعبہ کے چاروں ارکان (کونوں) میں سے صرف رکنِ اسود (وہ کونا جس میں حجرٍ اسود نصب ہے) اور رکنِ یمانی کا استلام کرتے۔ بیت اللہ کے چار ارکان (کونے) ہیں۔ ان میں سے مشرقی رکن کے دو فضائل ہیں:
1۔ یہ ابراہیم علیہ السلام کی قائم کی گئی بنیادوں پر ہے۔
2۔ اس میں حجرِ اسود ہے۔
جب کہ رکنِ یمانی کی صرف ایک ہی فضیلت ہے اور وہ ہے اس کا ابراہیم علیہ السلام کی رکھی گئی بنیادوں پر ہونا۔
رکنِ شامی اور رکنِ عراقی کو ان فضائل میں سے کوئی بھی فضیلت حاصل نہیں ہے کیوں کہ یہ دونوں ابراہیم علیہ السلام کی رکھی گئی بنیاد سے اندر واقع ہیں بایں طور کہ ان کی طرف سے کعبہ میں سے پتھر نکال دیا گیا تھا۔ اس لیے حجرِ اسود کا استلام اور بوسہ دونوں مشروع ہے جب کہ رکن یمانی کا بغیر بوسے کے استلام (چھونا) مشروع ہے۔ باقی دونوں ارکان کے لیے نہ تو استلام مشروع ہے اور نہ ہی بوسہ۔ شریعت کا مدار اتباع پر ہے نہ کہ نئی خودساختہ اور من گھڑت باتوں پر۔ اللہ کی شریعت میں اس کی بے پناہ حکمتیں اور اسرار پوشیدہ ہیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3026

 
 
Hadith   106   الحديث
الأهمية: إني أحبك في الله، فقال: أحبك الذي أحببتني له


Tema:

میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں، اس پر اس شخص نے کہا: تم سے بھی وہ ذات محبت کرے، جس کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أنَّ رَجُلاً كَانَ عِند النَبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- فَمَرَّ رَجُلٌ بِهِ، فقال: يا رسول الله، أنِّي لَأُحِبُّ هَذَا، فَقَال لَهُ النَبِيُّ -صلى الله عليه وسلم-: «أَأَعْلَمْتَهُ؟» قال: لا. قال: «أَعْلِمْهُ»، فَلَحِقَهُ، فقال: إِنِّي أُحِبُّك فِي الله، فقال: أّحَبَّك الَّذِي أَحْبَبْتَنِي لَهُ.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نبی ﷺ کے پاس تھا کہ اتنے میں ایک شخص کا اس کے قریب سے گزر ہوا۔ اس نے کہا: یا رسول اللہ! میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر نبی ﷺ نے اس سے پوچھا: کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟۔ اس نے جواب دیا : نہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: اسے یہ بات بتادو۔ چنانچہ اس آدمی نے اس شخص کے پیچھے جا کر اسے بتایا کہ : میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں۔ اس پر اس شخص نے کہا: تم سے بھی وہ ذات محبت کرے، جس کی خاطر تم مجھ سے محبت کرتے ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
جاء هذا الحديث النبوي الشريف تطبيقا لأمره -صلى الله عليه وسلم- بأن يُعلِم الإنسان أخاه إذا أحبَّه، لَمَّا قال له رجلٌ جالسٌ عنده: إنِّي أحب هذا الرجل. يقصد رجلًا آخر مرَّ بهما، فقال له -صلى الله عليه وسلم-: " أأعلمته" فدل هذا على أنه من السنَّة إذا أحبَّ المسلم شخصا أن يقول له: إني أحبك، وذلك لما في هذه الكلمة من إلقاء المحبة في قلبه؛ لأنَّ الإنسان إذا علم من أخيه أنَّه يحبه أحبَّه، مع أن القلوب لها تعارف وتآلف وإن لم تنطق الألسن.
وكما قال النبي -عليه الصلاة والسلام-: "الأرواح جنود مجندة ما تعارف منها ائتلف، وما تناكر منها اختلف" لكن إذا قال الإنسان بلسانه، فإن هذا يزيده محبة في القلب فيقول: إني أحبك في الله.
575;س حدیث شریف میں نبی ﷺ کے فرمان کی عملی تطبیق کا بیان ہے کہ انسان اگر اپنے مسلمان بھائی سے محبت کرتا ہو، تو اسے چاہیے کہ وہ اسے اس کے بارے میں بتائے۔ جب آپ ﷺ کے پاس بیٹھے ایک آدمی نے آپ ﷺ سے کہا کہ میں اس شخص سے محبت کرتا ہوں، جو ان کے پاس سے گزرا تھا، تو آپ ﷺ نے اس سے دریافت فرمایا: "کیا تم نے اسے یہ بات بتائی ہے؟"۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ جب کوئی کسی مسلمان سے محبت کرتا ہو، تو اس کا یہ کہنا کہ "میں تم سے محبت کرتا ہوں" سنت ہے؛ کیوں کہ اس سے اس کے دل میں بھی محبت پیدا ہوتی ہے۔ اس لیے کہ انسان کو جب اپنے بھائی سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس سے محبت کرتا ہے، تو وہ بھی اس سے محبت کرنے لگتا ہے، اگرچہ زبانوں سے اظہار نہ بھی ہو، تب بھی دلوں میں باہم جان پہچان اور مانوسیت ہوتی ہی ہے۔
جیسا کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "روحیں لشکر کی طرح ایک جگہ مجتمع تھیں، چنانچہ جو روحیں ایک دوسرے سے آپس میں مانوس و متعارف تھیں، وہ (اس دنیا میں بھی) ایک دوسرے کے ساتھ محبت و الفت رکھتی ہیں اور جو روحیں ایک دوسرے سے ان جان و نامانوس تھیں، وہ (اس دنیا میں بھی) اختلاف رکھتی ہیں"۔ لیکن انسان کا اپنی زبان سے اظہار محبت کرنا دوسرے کے دل میں محبت کو بڑھاتا ہے۔ چنانچہ اسے کہنا چاہیے کہ میں اللہ کی خاطر تم سے محبت کرتا ہوں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3028

 
 
Hadith   107   الحديث
الأهمية: أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ: سَأَلَتِ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ: إنِّي أُسْتَحَاضُ فَلا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلاةَ؟ قَالَ: لا، إنَّ ذَلِكَ عِرْقٌ، وَلَكِنْ دَعِي الصَّلاةَ قَدْرَ الأَيَّامِ الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي


Tema:

فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں اتنے دن نماز ضرور چھوڑ دیا کرو، جن میں اس بیماری سے پہلے تمھیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔

عن عائشة -رضي الله عنها-: ((أَنَّ فَاطِمَةَ بِنْتَ أَبِي حُبَيْشٍ: سَأَلَتِ النَّبِيَّ -صلى الله عليه وسلم- فَقَالَتْ: إنِّي أُسْتَحَاضُ فَلا أَطْهُرُ، أَفَأَدَعُ الصَّلاةَ؟ قَالَ: لا، إنَّ ذَلِكَ عِرْقٌ، وَلَكِنْ دَعِي الصَّلاةَ قَدْرَ الأَيَّامِ الَّتِي كُنْتِ تَحِيضِينَ فِيهَا، ثُمَّ اغْتَسِلِي وَصَلِّي)).
وَفِي رِوَايَةٍ ((وَلَيْسَت بِالحَيضَة، فَإِذَا أَقْبَلَت الحَيْضَة: فَاتْرُكِي الصَّلاة فِيهَا، فَإِذَا ذَهَبَ قَدْرُهَا فَاغْسِلِي عَنْك الدَّمَ وَصَلِّي)).

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت ہے، فرماتی ہیں: فاطمہ بنت ابی حبیش رضی اللہ عنہا نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ مجھے استحاضہ کا خون آتا ہے اور میں پاک نہیں ہو پاتی، تو کیا میں نماز چھوڑ دیا کروں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ یہ تو ایک رگ کا خون ہے۔ ہاں اتنے دن نماز ضرور چھوڑ دیا کرو، جن میں اس بیماری سے پہلے تمھیں حیض آیا کرتا تھا۔ پھر غسل کر کے نماز پڑھا کرو۔
ایک اور روایت میں یہ الفاظ ہیں: یہ حیض کا خون نہیں ہے۔ جب حیض آنے لگے، تو ان دنوں میں نماز چھوڑ دو اور جب اتنے ایام ختم ہوجائیں، تو اپنے بدن سے خون دھولو اور نماز پڑھو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
ذكرت فاطمة بنت أبي حُبَيْش -رضي الله عنها- للنبي -صلى الله عليه وسلم- أن دم الاستحاضة يصيبها، فلا ينقطع عنها، وسألته هل تترك الصلاة لذلك؟
فقال النبي -صلى الله عليه وسلم-: لا تتركي الصلاة؛ لأن الدم الذي تُترك لأجله الصلاة، هو دم الحيض.
وهذا الدم الذي يصيبك، ليس دم حيض، إنما هو دم عرق منفجر.
وإذا كان الأمر كما ذكرت من استمرار خروج الدم في أيام حيضتك المعتادة، وفي غيرها، فاتركي الصلاة أيام حيضك المعتادة فقط.
فإذا انقضت، فاغتسلي واغسلي عنك الدم، ثم صلّي، ولو كان دم الاستحاضة معك.
601;اطمہ بن ابی حُبیش رضی اللہ عنہ نے نبی ﷺ سے دریافت کیا کہ انہیں استحاضہ کا خون آتا ہے اور ختم نہیں ہوتا تو کیا ایسی صورت میں وہ نماز ترک کردے؟
نبی ﷺ نے ان سے فرمایا کہ نماز نہ چھوڑے، اس لیے کہ جس خون کے سبب نماز چھوڑی جاتی ہے وہ حیض کا خون ہے، اور یہ جو خون انہیں آرہا ہے وہ حیض نہیں، یہ تو ایک رگ ہے جو کہ پھٹ پڑی ہے۔
ہاں اگر صورت حال ایسی ہے جیسے تم نے ذکر کیا ہے کہ تمہارے ماہواری کے ایام میں خون جاری رہتا ہے اور اس کے بعد بھی تو صرف ماہواری کے ایام میں نماز کو چھوڑ دو۔
اور جب وہ ماہواری کے ایام ختم ہوجائیں تو غسل کرو اور جسم سے خون کو پاک صاف کردو اور پھر نماز ادا کرو اگرچہ استحاضہ کا خون جاری ہی کیوں نہ ہو۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3029

 
 
Hadith   108   الحديث
الأهمية: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يدخل الخلاء، فأحمل أنا وغلام نحوي إداوة من ماء وعنزة؛ فيستنجي بالماء


Tema:

رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کی جگہ جاتے تو میں اور میرے جیسا ایک اور لڑکا پانی کا برتن اور ایک نیزہ اٹھاۓ ہوتے۔ آپ ﷺ پانی کے ذریعے استنجا کرتے تھے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: ((كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يدخل الخلاء، فأحمل أنا وغلام نَحوِي إِدَاوَةً مِن ماء وَعَنَزَة؛ فيستنجي بالماء)).

انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ: رسول اللہ ﷺ قضائے حاجت کی جگہ جاتے تو میں اور میرے جیسا ایک اور لڑکا پانی کا برتن اور ایک نیزہ اٹھاۓ ہوتے۔ چنانچہ آپ ﷺ پانی سے استنجا کرتے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يذكر خادم النبي -صلى الله عليه وسلم- وهو أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- حينما يدخل موضع قضاء الحاجة، كان يجيء هو وغلام معه بطهوره، الذي يقطع به الأذى، وهو ماء في جلد صغير، وكذلك يأتيان بما يستتر به عن نظر الناس، وهو عصا قصيرة في طرفها حديدة، يغرزها في الأرض، ويجعل عليها شيئًا مثل: الرداء أو نحوه يقيه من نظر المارين، ويستتر به أيضًا إذا أراد أن يصلي.
606;بی ﷺ کے خادم انس بن مالک بیان کر رہے ہیں کہ نبی ﷺ جب قضائے حاجت کی جگہ جایا کرتے، تو وہ اور ان کے ساتھ ایک اور لڑکا آپ ﷺ کی طہارت کے لیے پانی لایا کرتے، جس سے آپ ﷺ نجاست صاف کیا کرتے تھے۔ یہ پانی چمڑے سے بنے ایک چھوٹے سے برتن میں ہواکرتا تھا۔ اسی طرح وہ لوگوں کی نگاہوں سے چھپنے کے لیے ایک چھوٹی سی لاٹھی بھی لایا کرتے، جس کے ایک کنارے پر لوہے کا پھل لگا ہوتا تھا۔ آپ ﷺ اسے زمین میں گاڑ کر اس پر کوئی چیز جیسے چادر وغیرہ ڈال دیاکرتے، جس سے آپ راہ گیروں کی نظروں سے محفوظ رہتے اور جب نماز کا ارادہ ہوتا، تو اسے بطور سترہ استعمال کرلیتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3030

 
 
Hadith   109   الحديث
الأهمية: سووا صفوفكم، فإن تسوية الصفوف من تمام الصلاة


Tema:

اپنی صفیں درست کیا کرو۔ اس لیے کہ صفوں کی درستی کمال نماز میں سے ہے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «سَوُّوا صُفُوفَكُم، فإِنَّ تَسوِيَة الصُّفُوف من تَمَام الصَّلاَة».

انس بن مالک - رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: ”اپنی صفیں درست کیا کرو۔ اس لیے کہ صفوں کی درستی کمال نماز میں سے ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يرشد النبي -صلى الله عليه وسلم- أمته إلى ما فيه صلاحهم وفلاحهم، فهو -هنا- يأمرهم بأن يسووا صفوفهم، بحيث يكون سمتهم نحو القبلة واحدا، ويسدوا خلل الصفوف، حتى لا يكون للشياطين سبيل إلى العبث بصلاتهم، وأرشدهم -صلى الله عليه وسلم- إلى بعض الفوائد التي ينالونها من تعديل الصف، وذلك أن تعديلها علامة على تمام الصلاة وكمالها، وأن اعوجاج الصف خلل ونقص فيها.
606;بی ﷺ اپنی امت کی ایسے کام کی طرف راہنمائی فرما رہے ہیں جس میں ان کا فائدہ اور فلاح ہے۔ چنانچہ - یہاں - آپ ﷺ انہیں حکم دے رہے ہیں کہ وہ اپنی صفوں کو درست کیا کریں بایں طور کہ وہ قبلہ کی طرف یک سو ہوں اور صفوں کے مابین کوئی خالی جگہ نہ رہنے دی جائے تاکہ شیاطین کو ان کی نماز خراب کرنے کا موقع نہ ملے۔ نیز آپ ﷺ نے ان کو بعض فوائد کی طرف توجہ دلائی جنہیں وہ صف کو سیدھا کر کے حاصل کر سکتے ہیں اور وہ یہ ہیں کہ صفوں کا سیدھا ہونا نماز کے تمام و کمال کی نشانی ہے اور صف کا ٹیڑھا ہونا نماز میں خلل اور نقص ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3031

 
 
Hadith   110   الحديث
الأهمية: إن من إجلال الله -تعالى-: إكرام ذي الشيبة المسلم، وحامل القرآن غير الغالي فيه، والجافي عنه، وإكرام ذي السلطان المقسط


Tema:

بوڑھے مسلمان کی توقیر کرنا، حامل قرآن کی توقیر کرنا جب کہ وہ قرآن میں غلو کرنے والا اور اس سے رو گردانی کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی عزت کرنا منجملہ طور پر اللہ کی تعظیم کرنا ہے۔

عن أبي موسى الأشعري -رضي الله عنه- قَالَ: قالَ رسول اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «إِنَّ مِنْ إِجْلاَلِ الله -تَعَالَى-: إِكْرَامَ ذِي الشَّيْبَةِ المُسْلِمِ، وَحَامِلِ القُرْآنِ غَيرِ الغَالِي فِيه، وَالجَافِي عَنْه، وَإِكْرَام ذِي السُّلْطَان المُقْسِط».

ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بوڑھے مسلمان کی توقیر کرنا، حامل قرآن کا احترام کرنا جب کہ وہ قرآن میں غلو کرنے والا اور اس سے رو گردانی کرنے والا نہ ہو اور عادل بادشاہ کی عزت کرنا منجملہ طور پر اللہ کی تعظیم کرنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أفاد هذا الحديث أن مما يحصل به إجلال الله -سبحانه- وتعظيمه وتوقيره أمور ذكرت في هذا الحديث وهي:
(إكرام ذي الشيبة المسلم): أي تعظيم الشيخ الكبير في الإسلام بتوقيره في المجالس والرفق به والشفقة عليه ونحو ذلك، وكل هذا من كمال تعظيم الله لحرمته عند الله.
(وحامل القرآن): أي وإكرام حافظه وسماه حاملا لأنه محمول في صدره ولما تحمل من مشاق كثيرة تزيد على الأحمال الثقيلة، ويدخل في هذا الإكرام المشتغل بالقرآن قراءة وتفسيرا.
وحامل القرآن الذي جاء ذكره في هذا الحديث النبوي، جاء تمييزه بوصفين:
(غير الغالي): والغلو التشديد ومجاوزة الحد، يعني غير المتجاوز الحد في العمل به وتتبع ما خفي منه واشتبه عليه من معانيه وفي حدود قراءته ومخارج حروفه. وقيل الغلو: المبالغة في التجويد أو الإسراع في القراءة بحيث يمنعه عن تدبر المعنى.
(والجافي عنه): أي وغير المتباعد عنه المعرض عن تلاوته وإحكام قراءته وإتقان معانيه والعمل بما فيه، وقيل في الجفاء: أن يتركه بعد ما علمه لا سيما إذا كان نسيه تساهلا وإعراضا.
وآخر ما جاء الذكر النبوي بالاشتغال بإكرامه (ذي السُّلطان المقسط): أي صاحب السلطة والمنصب الذي اتصف بالعدل، فإكرامه لأجل نفعه العام وإصلاحه لرعيته.
575;س حدیث میں اس بات کا بیان ہے کہ چند امور ایسے ہیں جن سے اللہ کی تعظیم و توقیر ہوتی ہے۔ ان امور کا ذکر اس حدیث میں ہے جو یہ ہیں: ”إكرام ذي الشيبة المسلم“: یعنی بڑی عمر کے مسلمان بزرگ کی تعظیم بایں طور کہ مجالس میں اس کی توقیر کرنا، اس سے نرمی اور شفقت بھرا معاملہ کرنا وغیرہ۔ یہ سب اللہ کی کامل طور پر تعظیم کرنے میں آتا ہے کیونکہ بوڑھے شخص کا اللہ کے نزدیک بہت احترام ہے۔ ”وحامل القرآن“: یعنی قرآن کے حافظ کا اکرام کرنا۔ اسے حامل قرآن کا نام اس لیے دیا گیا کیونکہ قرآن اس کے سینے میں ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ اس نے بہت مشقتیں برداشت کی ہوتی ہیں جو بڑے بڑے بوجھ سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ اس تعظیم کے دائرے میں وہ شخص بھی آتا ہے جو قرآن پڑھنے اور اس کی تفسیر میں مشغول رہتا ہے۔ وہ حامل قرآن جس کا اس حدیث میں ذکر آیا ہے اس کی دو امتیازی صفات بیان ہوئی ہیں: ”غير الغالي“: غلو کا معنی ہے سختی برتنا اور حد سے تجاوز کرنا۔ یعنی وہ حامل قرآن جو قرآن پر عمل کرنے میں اور اس کےمعانی میں سے جو اس پر مخفی اورمشتبہ ہوں ان کی ٹوہ میں لگنے میں اور اس کی قرأت کی حدود اور حروف کے مخارج میں حد سے تجاوز نہ کرنے والا ہو۔ ایک قول کی رو سےغلو کا معنیٰ تجوید میں اور جلدی پڑھنے میں مبالغہ کرنا ہے بایں طور کہ یہ بات اس کے معانی پر غور وتدبر میں آڑے آ جائے۔ ”والجافي عنه“: یعنی اس سے دور نہ ہٹنے والا اور اس کی تلاوت اور اچھے انداز میں اسے پڑھنے، اس کے معانی میں مہارت حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے سے رو گردانی نہ کرنے والا۔ایک اور قول کی رو سے جفاء کا معنیٰ یہ ہے کہ وہ اس کا علم حاصل کرنے کے بعد اسے چھوڑ دے خاص طور پر جب کہ وہ سستی اور اعراض کرنے کی وجہ سے اسے بھول جائے۔ آخری شے جس کے اکرام کرنے کا حدیث نبوی ﷺ میں ذکر آیا وہ عادل حکمران ہے۔ یعنی وہ صاحب اقتدار اور صاحب منصب جو عدل سے متصف ہو۔ اس کی عزت اس لیے ہے کیونکہ وہ سب کے لیے نفع بخش ہے اور اپنی رعایا کی بہتری کے لیے کام کرتا ہے۔   --  [حَسَنْ]+ +[اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3032

 
 
Hadith   111   الحديث
الأهمية: إذا توضأ أحدكم فليجعل في أنفه ماء، ثم لينتثر، ومن استجمر فليوتر، وإذا استيقظ أحدكم من نومه فليغسل يديه قبل أن يدخلهما في الإناء ثلاثا، فإن أحدكم لا يدري أين باتت يده


Tema:

جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے اور پھر اسے جھاڑے اور جو شخص پتھروں سے استنجا کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد سے استنجا کرے اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے۔ کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- قال: «إذا توضَّأ أحدُكُم فَليَجعَل في أنفِه ماءً، ثم ليَنتَنْثِر، ومن اسْتَجمَر فَليُوتِر، وإذا اسْتَيقَظَ أَحَدُكُم من نومِه فَليَغسِل يَدَيه قبل أن يُدْخِلهُما في الإِنَاء ثلاثًا، فإِنَّ أَحدَكُم لا يَدرِي أين بَاتَت يده».
وفي رواية: «فَليَستَنشِق بِمِنْخَرَيه من الماء».
وفي لفظ: «من توضَّأ فَليَسْتَنشِق».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی وضو کرے تو اسے چاہیے کہ اپنی ناک میں پانی ڈالے اورپھراسے جھاڑے اورجو شخص پتھروں سے استنجا کرے اسے چاہیے کہ طاق عدد سے استنجا کرے اور جب تم میں سے کوئی سو کر اٹھے تو برتن میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے اسے دھو لے، کیونکہ تم میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اس کے ہاتھ نے رات کہاں گزاری“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ:”وہ اپنے نتھنوں سے پانی چڑھائے“۔
اور دوسری روایت کے الفاظ ہیں کہ ”جو وضو کرے وہ (ناک میں) پانی چڑھائے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يشتمل هذا الحديث على ثلاث فقرات، لكل فقرة حكمها الخاص بها.
1.فذكر أن المتوضىء إذا شرع في الوضوء أدخل الماء في أنفه، ثم أخرجه منه وهو الاستنشاق والاستنثار المذكور في الحديث؛ لأن الأنف من الوجه الذي أُمِر المتوضىء بغسله، وقد تضافرت الأحاديث الصحيحة على مشروعيته؛ لأنه من النظافة المطلوبة شرعًا.
2.ثم ذكر أيضا أن من أراد قطع الأذى الخارج منه بالحجارة، أن يكون قطعه على وتر، أقلها ثلاث وأعلاها ما ينقطع به الخارج، وتنقي المحل إن كان وترًا، وإلا زاد واحدة، توتر أعداد الشفع.
3.وذكر أيضًا أن المستيقظ من نوم الليل لا يُدْخِلُ كفَّه في الإناء، أو يمس بها رطبًا، حتى يغسلها ثلاث مرات؛ لأن نوم الليل -غالبًا- يكون طويلا، ويده تطيش في جسمه، فلعلها تصيب بعض المستقذرات وهو لا يعلم، فشرع له غسلها للنظافة المشروعة.
575;س حدیث میں تین جملے ہیں جن میں سے ہر ایک کا خاص حکم ہے:
1۔ آپﷺ نے فرمایا کہ جب کوئی آدمی وضو شروع کرے تو اپنے ناک میں پانی ڈالے اور پھر اسے اس سے باہر نکالے۔ یہی وہ اسنتشاق اور استنثار ہے جو حدیث میں مذکور ہے۔ کیونکہ ناک چہرے کا حصہ جس کے بارے میں وضو کرنے والے کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اسے دھوئے۔ بہت سی ایسی صحیح احادیث موجود ہیں جو اس کی مشروعیت پر دلالت کرتی ہیں۔ کیونکہ یہ ایسی صفائی ہے جو شرعا مطلوب ہے۔
2۔ پھرآپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے سے نکلنے والی گندگی کو پتھر سے دور کرنا چاہے تو اسے چاہیے کہ وہ اسے طاق عدد میں پتھروں کے ساتھ دور کرے جو کم از کم تین ہوں اور زیادہ سے زیادہ اتنے ہوں کہ ان سے خارج شدہ گندگی دور ہو جائے اور جگہ صاف ہو جائے۔ اگر یہ طاق ہوں تو ٹھیک ورنہ ایک اور پتھر زیادہ کر دے جس سے جفت عدد طاق ہو جائے۔
3۔آپ ﷺ نے فرمایا کہ رات کی نیند سے بیدار ہونے والا اپنی ہتھیلی کو برتن کے اندر نہ لے جائے اور نہ ہی اس کے ساتھ تری کو چھوئے یہاں تک کہ اسے تین دفعہ دھو لے۔ کیونکہ رات کی نیند عموماً لمبی ہوتی ہے اور سونے والے کا ہاتھ جسم میں اِدھر اُدھرگھومتا رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ گندگی کو چھو جائے اور اسے اس کا علم ہی نہ ہو۔ اس لیے شرعی نظافت کے حصول کے لیے اس کے لیے اسے دھونا مشروع کیا گیا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3033

 
 
Hadith   112   الحديث
الأهمية: يا أيها الناس، عليكم بالسكينة، فإن البر ليس بالإيضاع


Tema:

اے لوگو! سکینت اختیار کرو کیونکہ تیز رفتاری نیکی نہیں ہے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- قال: دَفَعَ النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- يومَ عَرَفَة فَسَمِعَ النبيُّ -صلَّى الله عليه وسلَّم- وَرَاءَهُ زَجْرًا شَدِيدًا وَضَربًا وَصَوتًا لِلإِبِل، فَأَشَارَ بِسَوطِهِ إِلَيهِم، وقال: «يَا أَيُّهَا النَّاسُ، عَلَيكُم بِالسَّكِينَةِ، فَإِنَّ البِرَّ لَيسَ بِالإيضَاعِ».

عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روايت ہے کہ نبی کریم ﷺ عرفہ کے دن (عرفات سے ) روانہ ہوئے ، تو آپ ﷺ نے اپنے پیچھے سخت ڈانٹ، مار اور اونٹوں کی آواز سنی تو آپ نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: ”اے لوگو! سکینت اختیار کرو کیونکہ تيز رفتاری نیکی نہیں ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلم- أفاض من عرفة فسمع وراءه صوتًا شديدًا وضربًا وزجرًا للإبل وأصواتًا للإبل، وكان هذا المشهد من الناس نتيجة ما تعودوه زمن الجاهلية؛ لأنهم كانوا في أيام الجاهلية إذا دفعوا من عرفة أسرعوا إسراعًا عظيمًا يبادرون النهار قبل أن يظلم الجو، فكانوا يضربون الإبل ضربًا شديدًا، فأشار النبي -صلى الله عليه وسلم- إليهم بسوطه، وقال: أيها الناس الزموا الطمأنينة والهدوء، فإن البر والخير ليس بالإسراع والإيضاع وهو نوع من السير سريع.
606;بی کریم ﷺ عرفات سے (مزدلفہ کی طرف ) روانہ ہوئے، آپ نے اپنے پیچھے بلند آوازوں کے ساتھ اونٹوں کے ہانکنے اور مارنے کا شور و غل سنا، لوگوں نے ايسا اس ليے کيا کيونکہ وہ زمانۂ جاہليت ميں اسی کے عادی تھے. زمانۂ جاہليت ميں لوگ جب عرفہ سے نکلتے تھے تو بہت تيز چلتے تھے تاکہ تاريکی چھا جانے سے پہلے ہی وہاں سے کوچ کرجائیں، اس لیے وہ انٹوں کو بری طرح مارتے تھے۔ لہذا نبی ﷺ نے اپنے کوڑے سے لوگوں کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ اے لوگو! سکون واطمینان کو لازم پکڑو کیونکہ تيز رفتاری اور تیزروی نیکی اور بھلائی کا کام نہیں ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3034

 
 
Hadith   113   الحديث
الأهمية: ما أبكي أن لا أكون أعلم أن ما عند الله -تعالى- خير لرسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولكن أبكي أن الوحي قد انقطع من السماء، فهيجتهما على البكاء، فجعلا يبكيان معها


Tema:

میں اس وجہ سے نہیں رو رہی کہ مجھے علم نہیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؛ بلکہ میں تو اس وجہ سے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ ام ایمن نے ان دونوں کو بھی رلا دیا اور وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: قَال أَبُو بَكر لِعُمَر-رضي الله عنهما- بَعْدَ وَفَاةِ رَسُول الله -صلى الله عليه وسلم-: انْطَلِق بِنَا إِلَى أُمِّ أَيمَنَ -رَضِي الله عنها- نَزُورُهَا كَمَا كَانَ رَسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَزُورُها، فَلَمَّا انتَهَيَا إِلَيهَا، بَكَت، فَقَالاَ لَهَا: مَا يُبكِيك؟ أَمَا تَعْلَمِين أَنَّ ما عِنْد الله خَيرٌ لِرَسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟ فَقَالَت: مَا أَبْكِي أَنْ لاَ أَكُون أَعلَم أَنَّ مَا عِندَ الله -تعالى- خَيرٌ لِرَسُول الله -صلى الله عليه وسلم-، وَلَكِن أَبكِي أَنَّ الوَحي قَدْ انْقَطَع مِنَ السَّمَاء؛ فَهَيَجَتْهُمَا عَلَى البُكَاء؛ فَجَعَلاَ يَبْكِيَان مَعَهَا.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد کہا کہ چلو ہم ام ایمن رضی اللہ عنہا سے ملاقات کے لیے چلتے ہیں، جیسے رسول اللہ ﷺ ان سے ملاقات کے لیے جایا کرتے تھے۔ جب دونوں ان کے پاس پہنچے تو وہ رو پڑیں۔ انہوں نے ان سے کہا: آپ کیوں رو رہی ہیں؟ کیا آپ نہیں جانتیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؟۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ میں اس وجہ سے نہیں رو رہی کہ مجھے علم نہیں کہ جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ رسول اللہ ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؛ بلکہ میں تو اس وجہ سے رو رہی ہوں کہ آسمان سے وحی آنے کا سلسلہ منقطع ہو گیا ہے۔ ام ایمن نے ان دونوں کو بھی رلا دیا اور وہ بھی ان کے ساتھ رونے لگے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كان الصحابة -رضي الله عنهم- أحرص الناس على متابعة الرسول -صلى الله عليه وسلم- في كل صغيرة وكبيرة، حتى إنهم يتتبعون ممشاه في حياته، ومجلسه، وموطئه، وكل فعل علموا أنه فعله.
وهذا الحديث يُؤَكِّد ذلك، ويحكي قصة أبي بكر وعمر، حيث زارا امرأة كان النبي -صلى الله عليه وسلم- يزورها، فزاراها من أجل زيارة النبي -صلى الله عليه وسلم- إياها.
فلما جلسا عندها بكت، فقالا لها: ما يبكيك؟ أما تعلمين أن ما عند الله -سبحانه وتعالى- خير لرسوله؟ أي: خير له من الدنيا.
فقالت: إني لا أبكي لذلك ولكن لانقطاع الوحي؛ لأن النبي -صلى الله عليه وسلم- لما مات انقطع الوحي، فلا وحي بعد رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، ولهذا أكمل الله شريعته قبل أن يتوفى، فقال -تعالى- {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا}، فجعلا يبكيان؛ لأنها ذكرتهما بما كانا قد نسياه.
589;حابۂ کرام رضی اللہ عنھم ہر چھوٹے بڑے معاملے میں رسول اللہ ﷺ کی اتباع کرنے کے بہت زیادہ حریص تھے، یہاں تک کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی زندگی میں آپ ﷺ کے چلنے پھرنے، اٹھنے بیٹھنے اور آنے جانے کے انداز میں، غرض ہر اس فعل میں آپ کی پیروی کرتے تھے، جس کے بارے میں انہیں علم ہو جاتا کہ یہ آپ ﷺ کا عمل ہے۔
یہ حدیث اس کی تایید کرتی ہے۔ اس حدیث میں ابو بکر رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ بیان ہوا ہے کہ وہ ایک ایسی خاتون سے ملاقات کے لیے گئے، جن سے نبی ﷺ ملنے جایا کرتے تھے۔ ان دونوں نے صرف اس وجہ سے ان سے ملاقات کی کہ نبی ﷺ بھی ان سے ملا کرتے تھے۔
جب وہ اس خاتون کے پاس بیٹھے تو وہ رو پڑیں۔ انہوں نے پوچھاکہ آپ کو کس چیز نے رلا دیا؟ کیا آپ جانتی نہیں کہ اللہ کے پاس جو کچھ ہے، وہ اس کے رسول ﷺ کے لیے زیادہ بہتر ہے؟ یعنی وہ دنیا سے زیادہ بہتر ہے۔
اس پر انہوں نے جواب دیا کہ میں اس وجہ سے نہیں رو رہی ہوں، بلکہ میرے رونے کی وجہ تو یہ ہے کہ سلسلۂ وحی منقطع ہو گیا ہے۔ کیوںکہ نبی ﷺ کی وفات کے بعد اب کبھی وحی نہیں آئے گی۔ اسی وجہ سے اللہ تعالی نے آپ ﷺ کی وفات سے پہلے اپنی شریعت کو مکمل فرما دیا۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔ {الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا} المائدة: 3۔
ترجمہ: آج میں نے تمہارے لیے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنا انعام بھرپور کردیا اور تمہارے لیے اسلام کے دین ہونے پر رضامند ہوگیا۔
اس پر وہ دونوں بھی رونا شروع ہو گئے کیوںکہ انہوں نے انہیں بھولی ہوئی بہت سی باتیں یاد دلا دی تھیں۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3035

 
 
Hadith   114   الحديث
الأهمية: جاء أعرابي فبال في طائفة المسجد


Tema:

ایک اعرابی آیا اور اس نے مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه-قال: «جاء أعرابِيُّ، فبَالَ في طَائِفَة المَسجد، فَزَجَرَه النَّاسُ، فَنَهَاهُمُ النبِيُّ -صلى الله عليه وسلم- فَلمَّا قَضَى بَولَه أَمر النبي -صلى الله عليه وسلم- بِذَنُوب من ماء، فَأُهرِيقَ عليه».

انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک اعرابی آیا اور اس نے مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ لوگوں نے اسے ڈانٹا تو آپ ﷺ نے انہیں منع کر دیا۔ جب وہ پیشاب کر چکا تو نبی ﷺ نے پانی کا ایک ڈول لانے کا حکم دیا جسے اس پر بہا دیا گیا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
من عادة الأعراب، الجفاء والجهل، لبعدهم عن تعلم ما أنزل الله على رسوله -صلى الله عليه وسلم-.
فبينما كان النبي -صلى الله عليه وسلم- في أصحابه في المسجد النبوي، إذ جاء أعرابي وبال في أحد جوانب المسجد، ظناً منه أنه كالفلاة، فعظم فعله على الصحابة -رضي الله عنهم- لعظم حرمة المساجد، فنهروه أثناء بوله، ولكن صاحب الخلق الكريم، الذي بعث بالتبشير والتيسير نهاهم عن زجره، لما يعلمه من حال الأعراب، لئلا يُلوث بقعاً كثيرة من المسجد، ولئلا يلوث بدنه أو ثوبه، ولئلا يصيبه الضرر بقطع بوله عليه، وليكون أدعى لقبول النصيحة والتعليم حينما يعلمه النبي -صلى الله عليه وسلم-، وأمرهم أن يطهروا مكان بوله بصب دلو من ماء عليه.
575;عرابی لوگ عموماً سخت مزاج اور جاہل ہوتے ہیں کیونکہ وہ ان باتوں کو نہیں سیکھ پاتے جو اللہ تعالی نے اپنے رسول ﷺ پر نازل کی ہیں۔
نبی ﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ مسجد نبوی میں تشریف فرما تھے کہ ایک اعرابی نے آکر مسجد کے ایک گوشے میں پیشاب کرنا شروع کر دیا۔ اس کے خیال میں یہ مسجد بھی ویرانے ہی کی مانند تھی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس کا یہ فعل بہت گراں گزرا کیونکہ مساجد تو بہت حرمت والی جگہیں ہوتی ہیں۔ چنانچہ پیشاب کرنے کے دوران ہی انہوں نے اسے جھڑکنا شروع کر دیا۔ تاہم نبی ﷺ نے جو بہت بلند اخلاق سے متصف تھے اور جنہیں خوشخبری دینے اور آسانی پیدا کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا تھا انہیں اسے جھڑکنے سے منع کر دیا کیونکہ آپ ﷺ اعرابی لوگوں کے احوال سے خوب آگاہ تھے۔آپ ﷺ کے منع کرنے کا سبب یہ تھا کہ وہ مسجد کی مختلف جگہوں، اپنے جسم اور کپڑوں کو خراب نہ کرے اور اس لیے کہ اسے پیشاب سے روکنے کی وجہ سے کوئی ضرر لاحق نہ ہو اور جب نبی ﷺ اسے تعلیم دیں اور نصیحت کریں تو وہ پورے طریقے سے اسے قبول کرے۔ آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ پیشاب والی جگہ پر پانی کا ڈول بہا کر اسے صاف کر دیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3036

 
 
Hadith   115   الحديث
الأهمية: إذا دخل الرجل بيته، فذكر الله -تعالى- عند دخوله وعند طعامه قال الشيطان لأصحابه: لا مبيت لكم ولا عشاء، وإذا دخل فلم يذكر الله -تعالى- عند دخوله، قال الشيطان: أدركتم المبيت والعشاء


Tema:

جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے اور داخل ہوتے اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھی شیطانوں سے کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات بسر کرنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ رات کا کھانا ہے۔ اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رات گزارنے کی جگہ بھی مل گئی اور رات کا کھانا بھی۔

عن جابر بن عبد الله -رضي الله عنهما- مرفوعاً: «إِذَا دَخَل الرَّجُل بَيتَه، فَذَكَرَ اللهَ -تَعَالَى- عِندَ دُخُولِهِ، وَعِندَ طَعَامِهِ، قَالَ الشَّيطَانُ لِأَصْحَابِهِ: لاَ مَبِيتَ لَكُم وَلاَ عَشَاءَ، وَإِذَا دَخَلَ فَلَم يَذْكُر الله -تَعَالَى- عِندَ دُخُولِهِ، قَالَ الشَّيطَان: أَدْرَكْتُمُ المَبِيت؛ وَإِذا لَمْ يَذْكُرِ اللهَ -تَعَالَى- عِندَ طَعَامِه، قالَ: أَدرَكتُم المَبِيتَ وَالعَشَاءَ».

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب آدمی اپنے گھر داخل ہوتا ہے اور داخل ہوتے اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے تو شیطان اپنے ساتھی شیطانوں سے کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات گزارنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ رات کا کھانا ہے۔ اور جب گھر میں داخل ہوتے وقت آدمی اللہ کا نام نہیں لیتا تو شیطان کہتا ہے کہ تم نے رات گزارنےکی جگہ پالی۔ اور جب کھانا کھاتے ہوئے بھی اللہ کا نام نہیں لیتا ہے تو شیطان کہتا ہے کہ تمہیں رات گزارنے کی جگہ بھی مل گئی اور رات کا کھانا بھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث جابر -رضي الله عنه- جاء في موضوع أدب الطعام، حيث أخبر -رضي الله عنه- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: "إذا دخل الرجل بيته فذكر الله -تعالى- عند دخوله وعند طعامه قال الشيطان لأصحابه لا مبيت لكم ولا عشاء"؛ ذلك لأن الإنسان ذكر الله.


وذِكر الله -تعالى- عند دخول البيت أن يقول: "بسم الله ولجنا، وبسم الله خرجنا، وعلى الله ربِّنا توكلنا، اللهم إني أسألك خير المولج وخير المخرج"، كما جاء في حديث في إسناده انقطاع، وأما الذكر عند العشاء فأن يقول: "بسم الله".
فإذا ذكر الله عند دخوله البيت، وذكر الله عند أكله عند العشاء، قال الشيطان لأصحابه: "لا مبيت لكم ولا عشاء"؛ لأن هذا البيت وهذا العشاء حُمِيَ بذكر الله -عز وجل-، حماه الله -تعالى- من الشياطين.
وإذا دخل فلم يذكر الله -تعالى- عند دخوله قال الشيطان: "أدركتم المبيت"، وإذا قُدِّم إليه الطعام فلم يذكر الله -تعالى- عند طعامه قال: "أدركتم المبيت والعشاء"، أي: أن الشيطان يشاركه المبيت والطعام؛ لعدم التحصُّن بذكر الله.   وفي هذا حث على أن الإنسان ينبغي له إذا دخل بيته أن يذكر اسم الله، وكذلك عند طعامه.
580;ابر رضی اللہ عنہ کی حدیث کھانے کے آداب کے موضوع سے متعلق ہے۔ جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے نے فرمایا: ”جب آدمی اپنے گھر میں داخل ہوتا ہے تو وہ اپنے گھر میں داخل ہوتے وقت اور کھانا کھانے کے وقت اللہ تعالیٰ کا نام لیتا ہے اُس وقت شیطان اپنے ساتھیوں سے کہتا ہے کہ تمہارے لیے یہاں رات گزارنے کی جگہ نہیں ہے اور نہ رات کا کھانا ہے“۔ اس لیے کہ اس بندے نے اللہ کا ذکر کیا ہے۔
گھر میں داخلے ہوتے وقت اللہ کا ذکر یہ ہے کہ یوں کہے: ”‏‏‏‏‏‏بِسْمِ اللَّهِ وَلَجْنَا وَبِسْمِ اللَّهِ خَرَجْنَا وَعَلَى اللَّهِ رَبِّنَا تَوَكَّلْنَا، اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُکَ خَيْرَ الْمَوْلَجِ وَخَيْرَ الْمَخْرَجِ “ (ہم اللہ کا نام لے کر اندر جاتے ہیں اور اللہ ہی کا نام لے کر باہر نکلتے ہیں، اے اللہ! ہم تجھ سے اندر جانے اور گھر سے باہر آنے کی بہتری مانگتے ہیں) جس طرح کہ اس حدیث میں آیا ہے جس کی سند میں انقطاع ہے۔
جب کہ رات کے کھانے کے وقت کا ذکر ”بِسْمِ اللَّه“ کہنا ہے۔
پس جب بندہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے اور رات کا کھانا کھاتے وقت اللہ کا ذکر کرے تو شیطان اپنے ساتھیوں کو کہتا ہے: نہ تو تمہاری لیے رات بسر کرنے کی جگہ ہے اور نہ ہی رات کا کھانا۔ کیونکہ اس گھر اور اس کھانے کو اللہ عز و جل کے ذکر کے ساتھ محفوظ کر دیا گیا ہے چنانچہ اللہ تعالی نے اسے شیطانوں سے محفوظ کر دیا ہے۔
اور جب داخل ہوتے وقت اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے:”تمہیں رات گزارنے کی جگہ مل گئی“۔
اور جب اس کے سامنے کھانا پیش کیا جائے اور وہ کھانا کھاتے ہوئے اللہ کا ذکر نہ کرے تو شیطان کہتا ہے: ”تمہیں رات گزارنے کے لیے جگہ بھی مل گئی اور رات کا کھانا بھی“۔ یعنی شیطان اس کے ساتھ سونے کی جگہ اور رات کے کھانے میں شریک ہوتا ہے کیونکہ اللہ کے ذکر کے ساتھ اسے محفوظ نہیں کیا گیا۔
اس حدیث میں اس بات کی ترغیب ہے کہ انسان کے لیے مناسب یہ ہے کہ وہ جب اپنے گھرمیں داخل ہو اور جب وہ کھنا کھائے تو اللہ کا نام لے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3037

 
 
Hadith   116   الحديث
الأهمية: ما يمنعك أن تزورنا أكثر مما تزورنا؟


Tema:

جتنا تم ہم سے اب ملتے ہو اس سے زیادہ ملنے میں تمھارے لیے کیا رکاوٹ ہے؟

عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ -رضي الله عنهما- قال: «قال النبي -صلى الله عليه وسلم- لجبريل: «مَا يَمْنَعُك أَنْ تَزُورَنَا أَكْثَر مِمَّا تَزُورَنَا؟» فنزلت: (وَمَا نَتَنَزَّل إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَينَ ذَلِك ).

ابن عباس رضي الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے جبرئیل امین علیہ السلام سے فرمایا: ”جتنا تم ہم سے اب ملتے ہو اس سے زیادہ ملنے میں تمھارے لیے کیا رکاوٹ ہے؟“ تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی: (وَمَا نَتَنَزَّل إِلاَّ بِأَمْرِ رَبِّكَ لَهُ مَا بَيْنَ أَيدِينَا وَمَا خَلْفَنَا وَمَا بَينَ ذَلِك )[مريم: 64]
ترجمہ: ہم آپ کے رب کے حکم کے بغیر نازل نہیں ہوتے۔ اسی کی ملکیت ہے جو کچھ ہمارے آگے ہے اور جو کچھ ہمارے پیچھے ہے اور جو کچھ اس کے مابین ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يحكي الحديث شوق النبي -صلى الله عليه وسلم-  لجبريل -عليه السلام-؛ لأنَّه يأتيه من الله -عز وجل-، حيثُ أبطأ جبريل في النزول أربعين يوما فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم- يا جبريل: (ما يمنعك أن تزورنا)؟، أي: ما نزلت حتى اشتقت إليك، وأوحى الله إلى جبريل قل له: (وما نتنزل إلا بأمر ربك) أي قال الله -سبحانه- قل يا جبريل ما نتنزل في أوقات متباعدة إلا بإذن الله على ما تقتضيه حكمته، فهو سبحانه: (له ما بين أيدينا) أي: أمامنا من أمور الآخرة، (وما خلفنا): من أمور الدنيا، وتمام الآية "وما بين ذلك" أي: ما يكون من هذا الوقت إلى قيام الساعة، أي: له علم ذلك جميعه وما كان ربك نسيا أي: ناسيا يعني تاركا لك بتأخير الوحي عنك.
فالحاصل أن هذ الحديث يدل على أنه ينبغي للإنسان أن يصطحب الأخيار، وأن يزورهم ويزوروه لما في ذلك من الخير.
740;ہ حدیث نبی ﷺ کے جبریل علیہ السلام سے شوقِ ملاقات کو بیان کر رہی ہے۔ کیونکہ وہ اللہ عز و جل کے ہاں سے آتے ہیں۔ جب جبریل علیہ السلام نے آنے میں چالیس دن دیر کر دی تو نبی ﷺ نے ان سے فرمایا: اے جبریل! آپ ہم سے ملاقات کے لئے کیوں نہیں آتے؟ یعنی آپ نازل نہ ہوئے یہاں تک کہ میں آپ سے ملاقات کا مشتاق ہو گیا۔ اللہ تعالی نے جبریل علیہ السلام کی طرف وحی کی کہ آپ ﷺ سے کہیں: (وما نتنزل إلا بأمر ربك) یعنی اللہ سبحانہ نے کہا کہ اے جبرائیل! یہ کہو کہ ہم دیر دیر سے اللہ کے حکم ہی سے آتے ہیں جیسا کہ اس کی حکمت کا تقاضا ہوتا ہے۔ ہمارے آگے جو امور آخرت ہیں اور ہمارے پیچھے جو امور دنیا ہیں، اور آیت کا تکملہ "وما بين ذلك" (اور جو کچھ ان کے درمیان ہے) یعنی اس وقت سے لے کر قیامت آنے تک جو کچھ بھی ہو گا ان سب کا علم اسے ہے اور تیرا رب بھولنے والا نہیں یعنی وحی میں تاخیر کر کے آپ کو چھوڑ دینے والا نہیں ہے۔ خلاصہ یہ کہ اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ انسان کو چاہیے کہ وہ اچھے لوگوں کو اپنا ہم نشین بنائے، اور وہ ان کی زیارت کرےاور وہ لوگ اس سے ملاقات کرنے آئیں کیونکہ اس میں بہت خیر مضمر ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3038

 
 
Hadith   117   الحديث
الأهمية: رأيتك تصلي لغير القبلة؟ فقال: لولا أني رأيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يفعله ما فعلته


Tema:

میں نے آپ کو قبلہ کی بجائے دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھتا تو میں بھی نہ کرتا۔

عن أنس بن سيرين قال: «اسْتَقبَلنَا أَنَسًا حِين قَدِم مِن الشَّام، فَلَقِينَاه بِعَينِ التَّمرِ، فَرَأَيتُهُ يُصَلِّي على حِمَار، وَوَجهُهُ مِن ذَا الجَانِب -يعني عن يَسَارِ القِبلَة- فقلت: رَأَيتُك تُصَلِّي لِغَيرِ القِبلَة؟ فقال: لَولاَ أنِّي رَأيتُ رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يَفْعَلُه ما فَعَلتُه».

انس بن سیرین روایت کرتے ہوئے بیان کرتے ہیں کہ انس رضی اللہ عنہ شام سے جب واپس ہوئے، تو ہم ان سے عین التمر میں ملے۔ میں نے دیکھا کہ آپ گدھے پر سوار ہو کر نماز پڑھ رہے تھے اور آپ کا منہ قبلہ سے بائیں طرف تھا۔ اس پر میں نے کہا کہ میں نے آپ کو قبلہ کی بجائے دوسری طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ انھوں نے جواب دیا کہ اگر میں رسول اللہ ﷺ کو ایسا کرتے نہ دیکھتا، تو میں بھی نہ کرتا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قدم أنس بن مالك الشام، ولجلالة قدره وسعة علمه، استقبله الناس، وهكذا رواية مسلم (قدم الشام) ولكن معناها: تلقيناه في رجوعه حين قدم الشام، وإنما حذف ذكر الرجوع؛ للعلم به؛ لأنهم خرجوا من البصرة للقائه حين قدم من الشام.
فذكر الراوي -وهو أحد المستقبلين- أنَّه رآه يصلى على حمار، وقد جعل القبلة عن يساره، فسأله عن ذلك، فأخبرهم أنه رأى النبي -صلى الله عليه وسلم- يفعل ذلك، وأنه لو لم يره يفعل هذا، لم يفعله.
575;نس بن مالک رضی اللہ عنہ شام تشریف لائے۔ ان کی جلالت قدر اور علمی وسعت کی وجہ سے لوگوں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم کی روایت میں ”قَدِمَ الشَّامَ“ یعنی جب شام تشریف لائے ہی ہے، لیکن اس کا معنی یہ ہے کہ ہم نے انس رضی اللہ عنہ کی شام سے واپسی پر ملاقات کی، اس روایت میں ان کے رجوع کا ذکر حذف کر دیا گیا کیوں کہ یہ بات معلوم ہے اس لیے کہ وہ سب ان کی ملاقات کے لیے بصرہ سے باہر آئے جبکہ وہ شام سے واپس ہوئے تھے۔
راوی جو کہ استقبال کرنے والوں میں شامل تھے، کا بیان ہے کہ انھوں نے دیکھا کہ آپ رضی اللہ عنہ گدھے پر نماز پڑھ رہے تھے، بایں طور کہ قبلہ ان کے بائیں جانب تھا۔ راوی نے ان سے اس کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے لوگوں کو بتایا کہ انھوں نے نبی ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا تھا اور یہ کہ اگر انھوں نے آپ ﷺ کو ایسا کرتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا، تو وہ بھی ایسا نہ کرتے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3039

 
 
Hadith   118   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- كان يخرج من طريق الشجرة، ويدخل من طريق المعرس، وإذا دخل مكة، دخل من الثنية العليا، ويخرج من الثنية السفلى


Tema:

رسول اللہ ﷺ (مدینے سے) شجرہ کے راستے سے نکلتے اور معرس کے راستے سے داخل ہو تے تھے۔ جب مکہ میں داخل ہو تے تو ثنیہ علیا سے داخل ہو تے اور ثنیہ سفلیٰ سے باہر نکلتے تھے۔

عن عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- "أَنَّ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- كَانَ يَخرُجُ مِنْ طَرِيقِ الشَّجَرَةِ، وَيَدْخُلُ مِنْ طَرِيقِ الْمُعَرَّس، وَإِذَا دَخَلَ مَكَّةَ دَخَلَ مِنَ الثَنِيَّةِ العُلْيَا، وَيَخْرُجُ مِنَ الثَنِيَّةِ السُّفْلَى".

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ (مدینے سے) شجرہ کے راستے سے نکلتے اور معرس کے راستے سے داخل ہو تے تھے۔ اور جب مکے میں داخل ہو تے، تو ثنیہ علیا سے داخل ہو تے اور ثنیہ سفلیٰ سے باہر نکلتے تھے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث عبد الله بن عمر -رضي الله عنهما- في موضوع استحباب مخالفة الطريق في العيد والجمعة وغيرها من العبادات.
ومعنى مخالفة الطريق: أن يذهب المسلم إلى العبادة من طريق ويرجع من الطريق الآخر؛ فمثلًا يذهب من الجانب الأيمن ويرجع من الجانب الأيسر، وهذا ثابت عن النبي -صلى الله عليه وسلم- في العيدين، كما رواه جابر -رضي الله- عنه كان النبي -صلى الله عليه وسلم- إذا كان يوم عيد خالف الطريق؛ يعني خرج من طريق ورجع من طريق آخر، وكذلك في الحديث الذي معنا.
وتنوعت أقوال العلماء في الحكمة في المخالفة في الطريق على أقوال أشهرها:
1. ليشهد له الطريقان يوم القيامة؛ لأن الأرض يوم القيامة تشهد على ما عمل فيها من خير وشر، فإذا ذهب من طريق ورجع من آخر؛ شهد له الطريقان يوم القيامة بأنه أدى صلاة العيد.
2. من أجل إظهار الشعيرة، شعيرة العيد؛ حتى تكتظ الأسواق هنا وهناك، فإذا انتشر في طرق المدينة صار في هذا إظهار لهذه الشعيرة؛ لأن صلاة العيد من شعائر الدين، والدليل على ذلك أن الناس يؤمرون بالخروج إلى الصحراء؛ إظهارًا لذلك، وإعلانًا لذلك.
3. إنما خالف الطريق من أجل المساكين الذين يكونون في الأسواق، قد يكون في هذا الطريق ما ليس في هذا الطريق، فيتصدق على هؤلاء وهؤلاء.
ولكن الأقرب والله أعلم أنه: من أجل إظهار تلك الشعيرة، حتى تظهر شعيرة صلاة العيد بالخروج إليها من جميع سكك البلد.
أما في الحج كما جاء في الحديث الذي معنا، فإن الرسول -صلى الله عليه وسلم- خالف الطريق في دخوله إلى مكة دخل من أعلاها، وخرج من أسفلها، وكذلك في ذهابه إلى عرفة، ذهب من طريق ورجع من طريق آخر.
واختلف العلماء أيضا في هذه المسألة، هل كان النبي -صلى الله عليه وسلم- فعل ذلك على سبيل التعبُّد؛ أو لأنُّه أسهل لدخوله وخروجه؟ لأنه كان الأسهل لدخوله أن يدخل من الأعلى ولخروجه أن يخرج من الأسفل.
فمَنْ قال من العلماء قال بالأول قال: إنه سنة أن تدخل من أعلاها: أي أعلى مكة وتخرج من أسفلها، وسنة أن تأتي عرفة من طريق وترجع من طريق آخر.
ومنهم من قال: إن هذا حسب تيسر الطريق، فاسلك المتيسر سواء من الأعلى أو من الأسفل.
وعلى كل حال إن تيسر للحاج والمعتمر أن يدخل من أعلاها ويخرج من أسفلها فهذا طيب؛ فإن كان ذلك عبادة فقد أدركه، وإن لم يكن عبادة لم يكن عليه ضرر فيه، وإن لم يتيسر فلا يتكلف ذلك كما هو الواقع في وقتنا الحاضر، حيث إن الطرق قد وجهت توجيهًا واحدًا، ولا يمكن للإنسان أن يخالف ولي الأمر والحمد لله الأمر واسع.
593;بداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث عید، جمعہ اور دیگر عبادات میں راستہ بدل کر آنے جانے کے استحباب کے موضوع پر ہے۔ راستہ بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان ایک راستے سے عبادت کے لیے جائے اور دوسرے راستے سے واپس آئے۔ مثال کے طور پر وہ دائیں جانب سے جائے اور بائیں جانب سے واپس آئے۔ یہ رسول اللہ ﷺ سے عیدین میں ثابت ہے۔ جیسا کہ جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ عید کے دن راستہ تبدیل کرتےتھے۔ یعنی ایک راستے سے جاتے اور دوسرے سے واپس آتے۔ اس حدیث میں بھی یہی بیان ہوا ہے۔ علما نے راستہ تبدیل کرنے کی بہت ساری حکمتیں بیان کی ہیں، جن میں چند ایک مشہور یہ ہیں:
1۔ دونوں راستے قیامت کے دن اس کے لیے گواہ بنیں گے؛ کیوں کہ قیامت کے دن زمین انسان کے اچھے برے اعمال کی گواہی دے گی۔ اس لیے جب وہ ایک راستے سے جائےگا اور دوسرے سے واپس آ ئے گا، تودونوں راستے اس بات کے گواہ بن جائیں گے کہ اس نے نمازعید ادا کی تھی۔
2۔ عید جیسے اہم ترین اسلامی شعار کے اظہار کے لیے۔ جب ہر طرف بازار بھرجائیں گے اور لوگ شہر کے راستوں میں پھیل جائيں گے، تو اس اسلامی شعار کا اظہار ہوگا۔ عید اسلامی شعار ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اس کے اظہار اور اعلان کے لیے لوگوں کو صحرا میں نکلنے کا حکم دیا گیا ہے۔
3۔ اس کی ایک وجہ مساکین بھی ہیں، جو بازاروں میں کبھی اس راستے پر ہوتے ہیں، تو کبھی اس راستے پر۔ ایسے راستہ بدل لیا جائے، تاکہ سب پر صدقہ کیا جا سکے۔
لیکن قریب تر بات یہ ہے کہ اصل وجہ اس شعار کا اظہار ہے؛ تاکہ نماز عید کے لیے نکلنے سے شہر کی تمام سڑکوں سے نماز عید کے شعار کا اظہار ہو۔ جہاں تک حج کی بات ہے، تو جیساکہ اس حدیث میں مذکور ہے، رسول اللہ ﷺ نے مکہ میں داخل ہوتے وقت راستہ تبدیل کیا؛ مکہ کی اوپری جانب سے داخل ہوئے اور نچلی جانب سے نکلے۔ اسی طرح عرفہ جاتے وقت آپ ایک راستے سے گئے اور دوسرے راستے سے واپس ہوئے۔ علما کا اس مسئلے میں بھی اختلاف ہے کہ کیا رسول اللہ ﷺ نے یہ بطور عبادت کیا تھا یا اپنے داخل ہونے اور نکلنے کی سہولت کے مدنظر؟ کیوں کہ ممکن ہے کہ اوپری جانب سے داخل ہونا آسان ہو اور نچلی جانب سے نکلنا۔ پہلے موقف کے قائلین کا کہنا ہے کہ یہ سنت ہے کہ مکہ کی اوپری جانب سے داخل ہوا جائے اور نچلی جانب سے نکلا جائے اور یہ بھی سنت ہے کہ عرفہ میں ایک راستہ سے آیا جائے اور دوسرے سے واپس جایا جائے۔ جب کہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ معاملہ راستے کی فراہمی اور آسان ہونے کا ہے۔ جو راستہ سہل لگے، اسے اختیار کیا جائے، بالائی والا ہو یا زیریں والا۔
بہرحال اگر حاجی بالائی حصے سے داخل ہونے اور زیریں حصے سے نکلنے کا اہتمام کر سکے، تو یہ بہتر ہے؛ کیوں کہ اگر یہ عبادت ہے، تو ادا ہو گئی اور اگر عبادت نہیں ہے تو کوئی نقصان بھی نہیں ہوا۔ اور اگر ایسا ممکن نہ ہو سکا، تو اسے اس کا مکلف نہیں کیا جائے گا۔ جیسا کہ موجودہ صورت حال ہے۔ آج راستے یک رخی بنا دیے گئے ہیں اور اولیاء الامور کی مخالفت بھی ممکن نہیں ہے۔ اور الحمد للہ مسئلے میں بڑی گنجائش بھی ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3040

 
 
Hadith   119   الحديث
الأهمية: ارقبوا محمدًا -صلى الله عليه وسلم- في أهل بيته


Tema:

محمد ﷺ کا خیال آپ کے اہلِ بیت میں رکھو۔

عن أبي بكر الصديق -رضي الله عنه- قال: ارْقَبُوا محمَّدًا -صلَّى اللهُ عليهِ وسلَّم- فِي أَهلِ بَيتِهِ.

ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: تم محمد ﷺ کا ان کے اہل بیت کے بارے میں خیال رکھو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في أثر أبي بكر -رضي الله عنه- دليل على معرفة الصحابة -رضي الله عنهم- بحق أهل بيت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- وتوقيرهم واحترامهم، فمن كان من أهل البيت مستقيما على الدين مُتَّبِعًا لِسنَّة رسول الله -صلى الله عليه وسلم- فله حقان: حق الإسلام وحق القرابة من رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وفيه أن أبا بكر والصحابة كانوا يحبون آل البيت ويوصون بهم خيرًا.
575;بو بکر رضی اللہ عنہ کے اس اثر میں دلیل ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رسول ﷺ کے اہل بیت کے حق سے اور ان کی توقیر و احترام سے آگاہ تھے۔ اہل بیت میں سے جو شخص راست روی سے دین پر قائم ہو اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کا پیرو ہو اس کے دو حق ہیں: ایک اسلام کا حق اور دوسرا رسول اللہ ﷺ سے رشتہ داری کا حق۔ اس میں اس بات کا (بھی) بیان ہے کہ ابو بکر اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل بیت سے محبت رکھتے تھےاور ان کے بارے میں خیر خواہی کی تلقین کرتے تھے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3041

 
 
Hadith   120   الحديث
الأهمية: من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه جائزته
قالوا: وما جائزته؟ يا رسول الله، قال: يومه وليلته، والضيافة ثلاثة أيام، فما كان وراء ذلك فهو صدقة عليه


Tema:

جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے موافق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے“۔

عن أبي شُريح خُويلد بن عمرو الخزاعي عن النبي -صلى الله عليه وسلم- أنه قال: «مَنْ كَان يُؤمِن بِاللهِ وَاليَومِ الآخِرِ فَلْيُكْرِم ضَيفَه جَائِزَتَه»، قَالوا: وما جَائِزَتُهُ؟ يَا رسول الله، قال: «يَومُهُ ولَيلَتُهُ، والضِّيَافَةُ ثَلاَثَةُ أَيَّامٍ، فَمَا كَانَ وَرَاءَ ذَلك فَهُوَ صَدَقَةٌ عَلَيه».
وفي رواية: «لا يَحِلُّ لِمُسْلِمٍ أَنْ يُقِيمَ عِنْدَ أَخِيهِ حَتَّى يؤْثِمَهُ» قالوا: يَا رَسول الله، وَكَيفَ يُؤْثِمَهُ؟ قال: «يُقِيمُ عِندَهُ ولاَ شَيءَ لَهُ يُقرِيهِ بهِ».

ابو شریح خویلد بن عمرو الخزاعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کی دستور کے مطابق ہر طرح سے عزت کرے۔ پوچھا: یا رسول اللہ! دستور کے موافق کب تک ہے۔ فرمایا: ”ایک دن اور ایک رات اور میزبانی تین دن کی ہے اور جو اس کے بعد ہو وہ اس کے لیے صدقہ ہے“۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے پاس اس حد تک ٹھہرے کہ اسے گناہ گار ہی کردے۔لوگوں نے دریافت کیا کہ یا رسول اللہ! وہ اسے گناہ گار کیسے کرے گا؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ اس کے پاس ٹھہرے حالانکہ اس کی مہمان نوازی کے لیے اس کے پاس کچھ نہ ہو۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث أبي شريح الخزاعي -رضي الله عنه- يدل على إكرام الضيف وقراه، فلقد جاء عنه أنَّ النبي -صلى الله عليه وسلَّم- قال: "من كان يؤمن بالله واليوم الآخر فليكرم ضيفه"، وهذا من باب الحث والإغراء على إكرام الضيف، يعني أنَّ إكرام الضيف من علامة الإيمان بالله واليوم الآخر، ومن تمام الإيمان بالله واليوم الآخر.
ومما يحصل به إكرام الضيف: طلاقة الوجه، وطيب الكلام، والإطعام ثلاثة أيام، في الأول بمقدوره وميسوره، والباقي بما حضره من غير تكلف، ولئلا يثقل عليه وعلى نفسه، وبعد الثلاثة يُعد من الصدقات، إن شاء فعل وإلا فلا.
وأما قوله: "فليكرم ضيفه جائزته يوما وليلة والضيافة ثلاثة أيام" قال العلماء في معنى الجائزة: الاهتمام بالضيف في اليوم والليلة، وإتحافه بما يمكن من بر وخير، وأما في اليوم الثاني والثالث فيطعمه ما تيسر ولا يزيد على عادته، وأما ما كان بعد الثلاثة فهو صدقة ومعروف إن شاء فعل وإن شاء ترك.
وفي رواية مسلم "ولا يحل له أن يقيم عنده حتى يؤثمه" معناه: لا يحل للضيف أن يقيم عنده بعد الثلاث حتى يوقعه في الإثم؛ لأنه قد يغتابه لطول مقامه، أو يعرض له بما يؤذيه، أو يظن به مالا يجوز، وهذا كله محمول على ما إذا أقام بعد الثلاث من غير استدعاء من المضيف.
ومما ينبغي أن يعلم أن إكرام الضيف يختلف بحسب أحوال الضيف، فمن الناس من هو من أشراف القوم ووجهاء القوم، فيكرم بما يليق به، ومن الناس من هو من متوسط الحال فيكرم بما يليق به، ومنهم من هو دون ذلك.
575;بو شریح خزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث دلالت کرتی ہے کہ مہمان کا اکرام اور اس کی خدمت کرنی چاہیے۔ نبی ﷺ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ "جو شخص اللہ اور یومِ آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے مہمان کا اکرام کرے"۔ اس میں مہمان کے اکرام کی ترغیب ہے اور اس پر ابھارا گیا ہے یعنی مہمان کا اکرام کرنا اللہ اور یوم آخرت پر ایمان کی علامت ہے اور اس سے اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان کامل ہوتا ہے۔
جن باتوں سے مہمان کی تکریم ہوتی ہے وہ یہ ہیں: چہرے کی بشاشت، خوشگوار گفتگو، تین دن کھانا کھلانا، پہلے دن حسب استطاعت اور جس قدر میسر ہو اور باقی دنوں میں بلا تکلف جو ہو پیش کرنا تاکہ اس سے نہ تو مہمان پر بوجھ آئے اور نہ خود اس پر۔تین دن کے بعد مہمان نوازی صدقہ شمار ہوتی ہے، چاہے تو کرے اور چاہے تو نہ کرے۔
آپ ﷺ نے فرمایا: "فليكرم ضيفه جائزته يوما وليلة والضيافة ثلاثة أيام"۔ اس میں ’جائزہ‘ کے لفظ کے معنی میں علماء کا کہنا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ وہ ایک دن اور ایک رات مہمان کا خوب خیال رکھے اور اس کے ساتھ جو کچھ بھی اچھائی اور بھلائی ممکن ہو وہ کرے۔ جب کہ دوسرے اور تیسرے دن میں جو کچھ میسر ہو وہ اسے کھلائے اور اپنے معمول سے نہ بڑھے۔ جب کہ تین دن کے بعد یہ صدقہ اور نیکی ہے اگر چاہے تو کرلے اور اگر چاہے تو چھوڑ دے۔
مسلم شریف کی ایک روایت میں ہے کہ: " اس (مہمان) کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے ہاں اس حد تک قیام کرے کہ اسے گناہ گار ہی کر دے"۔ یعنی مہمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ میزبان کے ہاں تین دن کے بعد بھی قیام جاری رکھے یہاں تک کہ اسے گناہ گار کر دے۔ کیونکہ ہو سکتا ہے کہ وہ اس کے لمبے قیام کی وجہ سے اس کی غیبت کر بیٹھے یا اس کے ساتھ کچھ ایسا سلوک کرے جس سے اس کو تکلیف ہو یا پھر اس کے بارے میں کوئی گمان رکھے جو کرنا جائز نہیں۔ یہ سب اس صورت پر محمول ہے جب وہ میزبان کی دعوت کے بغیر اس کے ہاں تین دن کے بعد تک ٹھہرا رہے۔
یہاں یہ جان لینا مناسب ہے کہ مہمان کا اکرام مہمان کی حالت کے لحاظ سے مختلف ہوتا ہے۔ کچھ لوگ بڑے اور معزز ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کا اکرام ان کے شایانِ شان کرے۔ بعض لوگ متوسط درجے کے ہوتے ہیں ان کا اکرام ان کے لحاظ سے ہونا چاہیے۔ کچھ لوگ ان سے بھی کم تر درجے کے ہوتے ہیں۔   --  [صحیح]+ +[اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3042

 
 
Hadith   121   الحديث
الأهمية: إني قد رأيت الأنصار تصنع برسول الله -صلى الله عليه وسلم- شيئًا آليت على نفسي أن لا أصحب أحدًا منهم إلا خدمته


Tema:

میں نے انصار کو دیکھا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کچھ ایسا کرتے تھے کہ میں نے قسم کھا لی کہ جب ان میں سے کسی کی صحبت نصیب ہوگی، میں اس کی خدمت کروں گا۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- قال: خَرَجتُ معَ جَرِير بنِ عَبدِ الله البَجَلِي -رضي الله عنه- في سَفَرٍ، فَكَانَ يَخْدُمُنِي، فقُلتُ لَهُ: لا تفْعَل، فقَال: إِنِّي قَدْ رَأَيتُ الأَنْصَارَ تَصْنَعُ بِرَسُولِ الله -صلى الله عليه وسلم- شَيئًا آلَيتُ عَلَى نَفْسِي أَنْ لاَ أَصْحَبَ أَحدًا مِنْهُم إِلاَّ خَدَمْتُه.

انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں جریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک سفر پر تھا۔ وہ میری خدمت کرتےتھے۔ میں نے کہا کہ ایسا نہ کرو، تو انھوں نے کہا: میں نے انصار کو دیکھا تھا کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کچھ ایسا کرتے تھے کہ میں نے قسم کھا لی کہ جب مجھے ان میں سے کسی کی صحبت نصیب ہوگی، میں اس کی خدمت کروں گا۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
حديث جرير بن عبد الله البجلي -رضي الله عنه- فيه أنه -رضي الله عنه- كان في سفر فجعل يخدم رفقته وهم من الأنصار، ومنهم أنس -رضي الله عنه- وهو أصغر سنًّا منه، فقيل له في ذلك، يعني: كيف تخدمهم وأنت صاحب رسول الله -صلى الله عليه وسلم-؟
فقال: إني رأيت الأنصار تصنع برسول الله -صلى الله عيه وسلم- شيئًا؛ حلفت على نفسي ألا أصحب أحدا منهم إلا خدمته، وهذا من إكرام من يكرم النبي -صلى الله عليه وسلم-، فإكرام أصحاب الرجل إكرام للرجل، واحترامهم احترام له، ولهذا جعل -رضي الله عنه- إكرام هؤلاء من إكرام النبي -صلى الله عليه وسلم-.
580;ریر بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ وہ ایک سفر میں تھے۔ دوران سفر وہ اپنے ساتھ موجود انصار کی خدمت کرنے لگے۔ ان میں انس رضی اللہ عنہ بھی تھے، جو عمر میں ان سے چھوٹے تھے۔ چنانچہ ان سے کہا گیا کہ آپ صحابئ رسول ہونے کے باوجود ان کی خدمت کیوں کرتے ہیں؟
تو انھوں نے کہا: میں نے انصار کو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایسا (عقیدت مندانہ) برتاؤ کرتے ہوئے دیکھا تھا کہ دل میں قسم اٹھالی تھی کہ مجھے ان میں سے جو بھی ملے گا، میں اس کی خدمت اسی طرح کروں گا۔ یہ اس کا اکرام ہے، جو رسول اللہﷺ کا اکرام کرتا تھا۔ کسی کے دوستوں کا اکرام در حقیقت اسی کا اکرام اور ان کا احترام اصل میں اسی کا احترام ہوتا ہے۔ اسی لیے جریر رضی اللہ عنہ نے انصار کے اکرام کو نبی کریم ﷺ کا اکرام سمجھا۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3043

 
 
Hadith   122   الحديث
الأهمية: الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس


Tema:

کبیرہ گناہ یہ ہیں: اللہ کے ساتھ شرک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا، کسی جان کو (ناحق) قتل کرنا اور جھوٹی قسم کھانا۔

عن عبد الله بن عمرو بن العاص -رضي الله عنهما- عن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: «الكبائر: الإشراك بالله، وعُقُوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغَمُوس».

عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما، نبی ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ”ہر مہینے کے تین دن کا روزہ پوری زندگی کے روزے کے برابر ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يتناول هذا الحديث عددًا من الذنوب التي وصفت بأنها من الكبائر، وسميت بذلك لضررها الكبير على فاعلها وعلى الناس في الدنيا والآخرة.
فأولها "الإِشرَاكُ بِالله": أي: الكفر بالله بأن، يعبد معه غيره ويجحد عبادة ربه.   وثانيها "عُقُوقُ الوَالِدَينِ": والعقوق حقيقته: أن يفعل مع والديه أو مع أحدهما، ما يتأذى به عرفاً، كعدم احترامهما وسبهما وعدم القيام عليهما ورعايتهما عند حاجتهم إلى الولد.
وثالثها "قَتْل النَّفْس": بغير حق كالقتل ظلماً وعدواناً، أما إذا استحق الشخص القتل بحق من قصاص وغيره فلا يدخل في معنى هذا الحديث.
ثم خُتِم الحديث بالترهيب من "اليَمِين الغَمُوسُ": وسُمِيت بالغموس لأنَّها تغمس صاحبها في الإِثم أو في النار؛ لأنه حلف كاذباً على علم منه.
575;س حدیث میں متعدد گناہوں کا بیان ہے، جن کے بارے میں یہ فرمایا گیا کہ وہ کبیرہ گناہ ہیں۔ انھیں یہ نام اس لیے دیا گیا، کیوں کہ ان کا ارتکاب کرنے والے شخص اور لوگوں کو دنیا اور آخرت میں ان کا بہت زیادہ نقصان ہوتا ہے۔
پہلا : ”اللہ کے ساتھ شرک کرنا“ ہے۔ یعنی اللہ کے ساتھ کفر کرنا، بایں طور کہ اس کے ساتھ ساتھ بندہ کسی اور کی بھی عبادت کرے اور اپنے رب کی عبادت سے انکاری ہو جائے۔
دوسرا: ”والدین کی نافرمانی کرنا“ عقوق کا حقیقی معنی یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے والدین یا ان میں سے کسی ایک کے ساتھ ایسا سلوک روا رکھے، جو عرف کے اعتبار سے ان کے لیے تکلیف دہ ہو، جیسے ان کا احترام نہ کرنا، انھیں برا بھلا کہنا اور بوقت ضرورت اولاد کا ان کی دیکھ بھال نہ کرنا اور ان کا خیال نہ رکھنا۔
تیسرا: ”کسی جان کو قتل کرنا“ یعنی ظلم و زیادتی کرتے ہوئے ناحق قتل کرنا۔ تاہم اگر آدمی قصاص وغیرہ کی وجہ سے قتل کا مستحق ہو، تو اس پر اس حدیث کے معنی کا اطلا ق نہیں ہو گا۔
حدیث کا اختتام جھوٹی قسم کھانے سے ڈرا کر کیا گیا۔ جھوٹی قسم کو ”الیمین الغموس“ اس لیے کہا جاتا ہے، کیوں کہ یہ اپنے اٹھانے والے کو گناہ یا جہنم میں ڈبو دیتی ہے۔ کیوںکہ اس نے جان بوجھ کر جھوٹی قسم کھائی ہوتی ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام بخاری نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3044

 
 
Hadith   123   الحديث
الأهمية: أفضل الجهاد كلمة عدل عند سلطان جائر


Tema:

سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- عن النبيِّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- قَالَ: «أفضل الجهاد كلمة عَدْلٍ عند سُلْطَانٍ جَائِر».

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ”سب سے افضل جہاد ظالم بادشاہ کے سامنے کلمۂ حق کہنا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يبين النبي -صلى الله عليه وسلم- أن أعظم جهاد المرء أن يقول كلمة حق عن صاحب سلطة ظالم؛ لأنه ربما ينتقم منه بسببها ويؤذيه أو يقتله، فالجهاد يكون باليد كقتال الكفار، وباللسان كالإنكار على الظلمة، وبالقلب كجهاد النفس.
606;بی ﷺ وضاحت فرما رہے ہیں کہ انسان کا سب سے بڑا جہاد یہ ہے کہ وہ ظالم بادشاہ کے سامنے حق بات کہے، کیوں کہ ہو سکتا ہے کہ اس حق گوئی کی وجہ سے وہ بادشاہ کے انتقام اور ایذا کا شکار ہو جائے اور بادشاہ اسے تکلیف پہنچائے یا قتل کردے۔ جہاد ہاتھ سے کیا جاتا ہے جیسے کفار سے قتال کرنا اسی طرح جہاد زبان سے بھی کیا جاتا ہے جیسے کہ ظالموں پر نکیر کرنا نیز جہاد دل سے بھی کیا جاتا ہے جیسے نفس سے مجاہدہ کرنا۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3045

 
 
Hadith   124   الحديث
الأهمية: أن أم حبيبة استحيضت سبع سنين، فسألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك؟ فأمرها أن تغتسل


Tema:

ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ غسل کر لیا کریں۔

عن عائشة -رضي الله عنها- قالت: "إن أم حبيبة اسْتُحِيضَتْ سبع سنين، فسألت رسول الله -صلى الله عليه وسلم- عن ذلك؟ فأمرها أن تغتسل، قالت: فكانت تغتسل لكل صلاة".

عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سات سال تک استحاضہ کا خون آیا۔ انہوں نے رسول اللہ ﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا تو آپ ﷺ نے انہیں حکم دیا کہ وہ غسل کر لیا کریں، تو وہ ہر نماز کے لئے غسل کرتی تھیں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أمر النبي -صلى الله عليه وسلم- أم حبيبة حين سألته عن ما يلزمها في استحاضتها أن تغتسل، فكانت تغتسل لكل صلاة، وقد كانت استحيضت سبع سنين، والاستحاضة أمر عارض قليل في النساء، والأصل هو الحيض الذي يكون في أيام معدودة في الشهر وتصحبه علامات يعرفها النساء.
وكانت تغتسل لكل صلاة تطوعًا منها.
575;م حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جب رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ استحاضہ میں انہیں کیا کرنا چاہئے تو آپ ﷺ نے انہیں غسل کرنے کا حکم دیا۔ چنانچہ وہ ہر نماز کے لئے غسل کیا کرتی تھیں۔ انہیں سات سال تک استحاضہ کا خون آیا تھا۔
استحاضہ ایک عارضی امر ہے جو کم ہی عورتوں کو لاحق ہوتا ہے۔ اصل تو حیض ہے جو مہینے کے چند گنے چنے دنوں میں آتا ہے اور اس کی کچھ ایسی علامات ہوتی ہیں جسے عورتیں پہچانتی ہیں۔
ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنی جانب سے ہی تطوّعاً ہر نماز کے لیے غسل کرلیا کرتی تھیں۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3046

 
 
Hadith   125   الحديث
الأهمية: لا يبولن أحدكم في الماء الدائم الذي لا يجري، ثم يغتسل منه


Tema:

تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا ہوا نہ ہو پیشاب نہ کرے۔ اور پھر اسی میں غسل کرنے لگے۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- مرفوعاً: "لا يَبُولَنَّ أحَدُكم في الماء الدَّائِم الذي لا يجْرِي, ثمَّ يَغتَسِل مِنه".   وفي رواية: "لا يغتسل أحدكُم في الماء الدَّائم وهو جُنُب".

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ٹھہرے ہوئے پانی میں جو بہتا ہوا نہ ہو پیشاب نہ کرے، اور پھر اسی میں غسل کرنے لگے“۔
ایک اور روایت میں ہے کہ (رسول ﷺ نے فرمایا) ”تم میں سے کوئی بھی حالتِ جنابت میں ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل نہ کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
نهى النبي -صلى الله عليه وسلم- عن البول في الماء الراكد الذي لا يجري؛ لأن ذلك يقتضي تلوثه بالنجاسة والأمراض التي قد يحملها البول فتضر كل من استعمل الماء، وربما يستعمله البائل نفسه فيغتسل منه، فكيف يبول بما سيكون طهورًا له فيما بعد.
كما نهى عن اغتسال الجنب في الماء الراكد؛ لأن ذلك يلوث الماء بأوساخ وأقذار الجنابة.
606;بی ﷺ نے ایسے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا جو ٹھہرا ہوا ہو اورجاری نہ ہو۔ کیونکہ اس کی وجہ سے یہ نجاست سے آلودہ ہو جاتا ہے۔ وہ امراض جو پیشاب کے بسبب در آ سکتے ہیں ہر اس شخص کو نقصان دے سکتے ہیں جو پانی کو استعمال کرے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ خود پیشاب کرنے والا ہی اس پانی کو استعمال کرے اور اس سے غسل کرے۔ چنانچہ اس کے لیے کیسے روا ہے کہ وہ ایسی شے میں پیشاب کرے جو بعد میں اس کے لیے حصولِ طہارت کا ذریعہ ہو گی۔
اسی طرح نبی ﷺ نے جنبی شخص کو ٹھہرے ہوئے پانی میں غسل کرنے سے منع فرمایا کیونکہ ایسا کرنا پانی کو جنابت کی گندگی سے آلودہ کر دیتا ہے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3047

 
 
Hadith   126   الحديث
الأهمية: استوصوا بالنساء خيرا؛ فإن المرأة خلقت من ضلع، وإن أعوج ما في الضلع أعلاه، فإن ذهبت تقيمه كسرته، وإن تركته، لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء


Tema:

عورتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو، کیونکہ عورت پسلی سے پیدا کی گئی ہے، اور پسلی کا سب سے ٹیڑھا حصہ اس کا بالائی حصہ ہے، اب اگر تم اسے سیدھا کرنا چاہو تو توڑ دو گے، اور اگر اسے اس کے حال پر چھوڑدو تو ٹیڑھی رہے گی، لہٰذا عورتوں سے اچھا برتاؤ کرو۔

عن أبي هريرة -رضي الله عنه- قال: قال رسول الله -صلى الله عليه وسلم-: «اسْتَوْصُوا بالنِّساءِ خَيْرًا؛ فَإِنَّ المرأة خُلِقَتْ مِن ضِلعٍ، وَإنَّ أعْوَجَ مَا في الضِّلَعِ أعْلاهُ، فَإنْ ذَهَبتَ تُقيمُهُ كَسَرْتَهُ، وإن تركته، لم يزل أعوج، فاستوصوا بالنساء».
وفي رواية: «المرأة كالضِّلَعِ إنْ أقَمْتَهَا كَسَرْتَهَا، وَإن اسْتَمتَعْتَ بها، استمتعت وفيها عوَجٌ».
وفي رواية: «إنَّ المَرأةَ خُلِقَت مِنْ ضِلَع، لَنْ تَسْتَقِيمَ لَكَ عَلَى طَريقة، فإن استمتعت بها استمتعت بها وفيها عوج، وإنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَها، وَكَسْرُهَا طَلاَقُهَا».

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺنے فرمایا: ”عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کی میری وصیت قبول کرو، کیوں کہ عورت کو پسلی سے پیداکیاگیاہے اورپسلی میں سب سے زیادہ ٹیڑھاپن اس کے اوپروالے حصے میں ہوتاہے۔اگرتم اسے سیدھاکرنے لگ جاؤگے،تواسے توڑ بیٹھو گے اور اگر اس کو یوں ہی چھوڑدوگے،تو وہ ٹیڑھی ہی رہے گی۔ اس لیے عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت قبول کرو“۔
ایک اور روایت میں ہے: ”عورت پسلی کی مانند ہے۔اگر تم اسے سیدھا کرنے لگ جاؤ گے،تواسے توڑ بیٹھوگے۔اگرتم اس سے فائدہ اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہو،تو ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں فائدہ اٹھاسکتے ہو“۔
ایک دوسری روایت میں ہے:”عورت کو پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ کسی طریقے سے بھی تمھارے لیے سیدھی نہیں ہوسکتی۔ اگرتم اس سے فائدہ اٹھانے کاارادہ رکھتے ہو، تو ٹیڑھے پن ہی کی حالت میں فائدہ اٹھاسکتے ہو اور اگر تم اسے سیدھا کرنے میں لگ گئے، تو اسے توڑ بیٹھوگے۔ اس کے توڑنے سے مراد اسے طلاق دینا ہے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
أخبر أبو هريرة -رضي الله عنه- في معاشرة النساء أن النبي -صلى الله عليه وسلم- قال: اقبلوا هذه الوصية التي أوصيكم بها، وذلك أن تفعلوا خيرًا مع النساء؛ لأن النساء قاصرات في العقول، وقاصرات في الدين، وقاصرات في التفكير، وقاصرات في جميع شؤونهن، فإنهن خلقن من ضلع.
وذلك أن آدم -عليه الصلاة والسلام- خلقه الله من غير أب ولا أم، بل خلقه من تراب، ثم قال له كن فيكون، ولما أراد الله -تعالى- أن يبث منه هذه الخليقة، خلق منه زوجه، فخلقها من ضلعه الأعوج، فخلقت من الضلع الأعوج، والضلع الأعوج إن استمتعت به استمتعت به وفيه العوج، وإن ذهبت تقيمه انكسر.
فهذه المرأة أيضا إن استمتع بها الإنسان استمتع بها على عوج، فيرضى بما تيسر، وإن أراد أن تستقيم فإنها لن تستقيم، ولن يتمكن من ذلك، فهي وإن استقامت في دينها فلن تستقيم فيما تقتضيه طبيعتها، ولا تكون لزوجها على ما يريد في كل شيء، بل لابد من مخالفة، ولابد من تقصير، مع القصور الذي فيها، فإن ذهبت تقيمها كسرتها وكسرها طلاقها، ومعناه أنك إن حاولت أن تستقيم لك على ما تريد فلا يمكن ذلك، وحينئذ تسأم منها وتطلقها.
575;بوہریرہ رضی اللہ عنہ عورتوں کے ساتھ معاشرت کے بارے بتا رہے ہیں کہ نبیﷺنے فرمایا:میں تمھیں جو وصیت کرنے جا رہا ہوں، اسے پلے سے باندھ لو۔وصیت یہ ہے کہ تم عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا۔ کیوںکہ عورتیں عقلی، دینی اور غور وفکر کی صلاحیت کے اعتبار سے کم تر ہوتی ہں۔بلکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ اپنے تمام امور میں نا پختہ ہوتی ہیں۔ کیوںکہ انھیں پسلی سے پیدا کیا گیا ہے۔
وہ اس طرح کہ آدم علیہ السلام کو اللہ تعالی نے بغیر باپ اور ماں کے پیدا فرمایا؛بلکہ انھیں مٹی سے پیدا فرمایا اور پھر فرمایا کہ"ہوجا"تو وہ عالم وجود میں آ گئے۔جب اللہ تعالی نے ان سے ان کی نسل پھیلانے کا ارادہ فرمایا، تو انہی سے ان کی زوجہ کو پیدا کیا۔اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کی زوجہ کو ان کی ٹیڑھی پسلی سے پیدا فرمایا۔چنانچہ معلوم ہواکہ عورت کی پیدائش ٹیڑھی پسلی سے ہوئی ہے۔
اگر آپ ٹیڑھی پسلی سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، تو اس کے ٹیڑھے پن کے ساتھ ہی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔اگر اسے سیدھا کرنے لگ جائیں گے،تو وہ ٹوٹ جائے گی۔یہی حال عورت کا بھی ہے۔اگر انسان اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے،تو اس میں موجود کجی کے ساتھ ہی فائدہ اٹھانا ہوگا۔جتنا فائدہ حاصل ہو جائے، اسی پر راضی ہونا ہوگا۔اگر وہ اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرے گا،تو وہ سیدھی نہیں ہوگی۔انسان اپنی کوشش میں ناکام رہے گا۔دین کے معاملے میں درست ہو بھی جاۓ،تو طبعی میلانات کے معاملے میں کجی باقی رہے گی۔ ہر بات میں شوہرکی چاہت پرپورانہیں اترسکتی؛بلکہ مخالفت اورکوتاہی ناگزیرہے۔ جوکجی ہے،وہ رہنی ہی ہے۔اگر آپ اسے سیدھاکرنے جائیں گے،تواسے توڑ بیٹھیں گے۔یہاں توڑنے سے مراداسے طلاق دیناہے۔مطلب یہ ہے کہ اگرآپ یہ کوشش کریں گے کہ آپ جو چاہیں،وہ اس کے موافق ہوجائے،توایساممکن نہیں ہے۔ایسی صورت میں آپ اس سے اکتاکراسے طلاق دے بیٹھیں گے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - اس حدیث کی دونوں روایات متفق علیہ ہیں۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3049

 
 
Hadith   127   الحديث
الأهمية: أن رسول الله  -صلى الله عليه وسلم- رأى رجلًا معتزلًا، لم يصل في القوم، فقال: يا فلان، ما منعك أن تصلي في القوم؟ فقال: يا رسول الله أصابتني جنابة، ولا ماء، فقال: عليك بالصعيد، فإنه يكفيك


Tema:

رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو الگ بیٹھا ہوا دیکھا جس نے باجماعت نماز نہیں پڑھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں جنبی ہوگیا تھا اور میں نے پانی نہیں پایا، آپ نے فرمایا: (پانی نہ ملنے پر) تم مٹی استعمال کرتے وہ تمہارے لیے کافی تھی۔

عن عمران بن حصين -رضي الله عنهما- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رأى رجلًا مُعتزلًا، لم يُصَلِّ في القوم، فقال: (يا فلان، ما منعك أن تصلي في القوم؟) فقال: يا رسول الله أصابتني جنابةٌ، ولا مَاءَ، فقال: (عليك بالصَّعِيدِ، فإنه يَكْفِيَكَ).

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ایک آدمی کو الگ بیٹھا ہوا دیکھا جس نے باجماعت نماز نہیں پڑھی تھی، آپ ﷺ نے فرمایا: اے فلاں ! تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے کس چیز نے روک دیا؟ اس نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں جنبی ہوگیا تھا اور میں نے پانی نہیں پایا، آپ نے فرمایا: (پانی نہ ملنے پر) تم مٹی استعمال کرتے وہ تمہارے لیے کافی تھی۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
صلى النبي -صلى الله عليه وسلم- بالصحابة صلاة الصبح، فلما فرغ من صلاته رأى رجلا لم يصل معهم، فكان من كمال لطف النبي -صلى الله عليه وسلم-، وحسن دعوته إلى الله، أنه لم يعنفه على تخلفه عن الجماعة، حتى يعلم السبب في ذلك، فقال: يا فلان، ما منعك أن تصلى مع القوم؟، فشرح عذره -في ظنه- للنبي -صلى الله عليه وسلم- بأنه قد أصابته جنابة ولا ماء عنده، فأخر الصلاة حتى يجد الماء ويتطهر، فقال -صلى الله عليه وسلم- إن الله تعالى قد جعل لك -من لطفه- ما يقوم مقام الماء في التطهر، وهو الصعيد، فعليك به، فإنه يكفيك عن الماء.
606;بی ﷺ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کو صبح کی نماز پڑھائی، نماز سے فراغت کے بعد آپ ﷺ نےایک آدمی کو دیکھا جس نے صحابہ کے ساتھ نماز نہیں ادا کی تھی۔ یہ نبی ﷺ کا کمالِ لطف ومہربانی اور دعوت الی اللہ میں خوش اسلوبی ہی تھی کہ آپ نے اس کے جماعت سے پیچھے رہ جانے پر سختی نہیں برتی یہاں تک کہ تاخیر کی وجہ جان لی۔ آپ نے فرمایا: اے فلاں! کس چیز نے تمہیں لوگوں کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکا؟ اپنی گمان کے مطابق اس نے اپنا عذر نبی ﷺ کے سامنے پیش کیا کہ اسے جنابت لاحق ہو گئی تھی اور پانی نہیں تھا اس لیے پانی کے ملنے اور طہارت حاصل کرنے تک اس نے نماز کو مؤخر کر دیا۔ تو آپ ﷺ نے فرمایا:اللہ تعالی نےاپنی لطف ومہربانی سے طہارت حاصل کرنے میں پانی کےقائم مقام ایک چیز رکھی ہے اور وہ مٹی ہے۔ تو تم مٹی کو استعمال کرو کیوں کہ یہ تمہارے لیے پانی کےقائم مقام ہے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3051

 
 
Hadith   128   الحديث
الأهمية: أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أتى منى، فأتى الجمرة فرماها، ثم أتى منزله بمنى ونحر، ثم قال للحلاق: خذ، وأشار إلى جانبه الأيمن، ثم الأيسر، ثم جعل يعطيه الناس


Tema:

رسول اللہ ﷺ منیٰ تشر یف لا ئے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنے پڑاؤ پر آئے اور قر با نی کی ،پھر بال مونڈنے والے سے فر ما یا : پکڑو۔اور آپ نے اپنے (سر کی ) دائیں طرف اشارہ کیا پھر بائیں طرف پھر آپ (اپنے موئے مبارک )لوگوں کو دینے لگے۔

عن أنس بن مالك -رضي الله عنه- أن رسول الله -صلى الله عليه وسلم- أتى مِنَى، فأتى الجَمْرَةَ فرماها، ثم أتى منزله بمِنَى ونحر، ثم قال للحلاق: «خُذْ» وأشار إلى جانبه الأيمن، ثم الأيسر، ثم جعل يعطيه الناسَ.
وفي رواية: لما رمى الجَمْرَةَ، ونحر نُسُكَهُ وحلق، ناول الحلاق شِقَّهُ الأيمن فحلقه، ثم دعا أبا طلحة الأنصاري -رضي الله عنه- فأعطاه إياه، ثم ناوله الشِّقَّ الأَيْسَرَ، فقال: «احْلِقْ»، فحلقه فأعطاه أبا طلحة، فقال: «اقْسِمْهُ بين الناس».

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ منیٰ تشر یف لائے پھر جمرہ عقبہ کے پاس آئے اور اسے کنکریاں ماریں پھر منیٰ میں اپنے پڑاؤ پر آئے اور قر با نی کی، پھر بال مونڈنے والے سے فر ما یا : پکڑو۔ اور آپ نے اپنے (سر کی ) دائیں طرف اشارہ کیا پھر بائیں طرف پھر آپ (اپنے موئے مبارک )لوگوں کو دینے لگے۔
ایک دوسری روایت میں ہے کہ رمی جمرہ کے بعد آپ ﷺ نے قربانی کی اور سر منڈایا؛ نائی کو سر کا دایاں حصہ (مونڈنے کے لیے) دیا اُس نے اسے مونڈ دیا، آپ ﷺ نے ابوطلحہ انصاری رضی اللہ عنہ کو بلا کر وہ بال دے دیے، پھر نائی کو بایاں حصہ دیا اور اُس سے فرمایا مونڈ دو، اُس نے مونڈ دیا، آپ ﷺ نے اُسے بھی ابوطلحہ کو دے دیا اور فرمایا ’’اسے لوگوں کے مابین تقسیم کردو‘‘۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
لما أتى النبي -صلى الله عليه وسلم- في حجة الوداع إلى منى يوم العيد رمى الجمرة، ثم ذهب إلى منزله ونحر هديه، ثم دعا بالحلاَّق فحلق رأسه؛ وأشار -صلى الله عليه وسلَّم- إلى الشق الأيمن فبدأ الحلاَّق بالشقِّ الأيمن، ثم دعا أبا طلحة -رضي الله عنه الأنصاري- وأعطاه شعر الشق الأيمن كله، ثم حلق بقية الرأس، ودعا أبا طلحة وأعطاه إياه، وقال: "اقسمه بين الناس" فقسمه، فمن الناس من ناله شعرة واحدة، ومنهم من ناله شعرتان، ومنهم من ناله أكثر حسب ما تيسر؛ وذلك لأجل التبرك بهذا الشعر الكريم؛ شعر النبي -صلى الله عليه وسلم-.
وهذا جائز وخاص بآثاره -صلى الله عليه وسلم-.
585;سول اللہ ﷺ حجۃ الوداع کے موقع پرجب عید کے دن منیٰ آئے توجمرات کی رمی کی، پھر اپنے ٹھکانے کی طرف گیے اور اپنے قربانی کے جانور کی نحر کی، اس کے بعد نائی کو بلایا اس نے آپ کے سر کے بال مونڈے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنی دائیں جانب اشارہ کیا تو حلاق(نائی) نے دائیں جانب سے بال مونڈنا شروع کیا۔ پھرآپﷺ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور اپنی دائیں جانب کے کٹے ہوئے تمام بال ان کو دے دیے۔ پھر باقی سر مونڈا گیا اور آپ نے ابو طلحہ کو بلایا اور وہ بھی ان کو دے دیے اور فرمایا کہ اس کو لوگوں میں تقسیم کر دو۔ انھوں نے وہ بال لوگوں میں تقسیم کر دیے کسی کو ایک بال ملا، کسی کو دو اور کسی کو اس سے زیادہ جو میسر ہوا ملا۔ اور یہ نبی ﷺ کے اس مبارک بال کے تبرک کی وجہ سے ہوا۔ اور یہ صرف رسول اللہ ﷺ کے آثار کے ساتھ خاص اور جائز ہے۔   --  [صحیح]+ +[اس حديث کی دونوں روایتوں کو امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3052

 
 
Hadith   129   الحديث
الأهمية: إن الدنيا حُلوة خَضِرَة، وإن الله مستخلفكم فيها فينظر كيف تعملون، فاتقوا الدنيا واتقوا النساء؛ فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء


Tema:

بلا شبہ دنیا شیریں اور سرسبز وشاداب ہے اور اللہ اس میں تمہیں جانشیں بنانے والا ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل میں رونما ہونے والا پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا۔

عن أبي سعيد الخدري -رضي الله عنه- عن النبيِّ -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم- قَالَ: «إن الدنيا حُلْوَةٌ خَضِرَةٌ، وإن الله مُسْتَخْلِفُكُمْ فيها فينظرَ كيف تعملون، فاتقوا الدنيا واتقوا النساء؛ فإن أول فتنة بني إسرائيل كانت في النساء».

ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”بلا شبہ دنیا شیریں اور سرسبز وشاداب ہے اور اللہ اس میں تمہیں جانشیں بنانے والا ہے اور وہ دیکھنا چاہتا ہے کہ تم کیسے عمل کرتے ہو۔ لہذا دنیا سے بچو اور عورتوں سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل میں رونما ہونے والا پہلا فتنہ عورتوں کا ہی تھا“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
شبَّه النبي -صلى الله عليه وسلم- الدنيا بالفاكهة الحلوة الخضرة، للرغبة فيها والميل إليها، وأخبر أن الله جعلنا خلفاء يخلف بعضنا بعضا فيها؛ فإنها لم تصل إلى قوم إلا بعد آخرين، فينظر الله -تبارك وتعالى- كيف نعمل فيها هل نقوم بطاعته أم لا.
ثم أمرنا النبي -صلى الله عليه وسلم- أن نحذر فتنة الدنيا وأن لا نغتر بها ونترك أوامر الله -تعالى- واجتناب مناهيه فيها.
ولما كان للنساء النصيب الأوفر في هذا الافتتان، نبَّه -صلى الله عليه وسلم- إلى خطورة الافتتان بهن وإن كان داخلا في فتن الدنيا؛ وأخبر أن أول فتنة بني إسرائيل كانت بسبب النساء، وبسببهن هلك كثير من الفضلاء.
606;بی ﷺ نے دنیا کو شیریں اور سرسبز میوے سے تشبیہ دی اس لیے کہ (انسان میں) اس کی چاہت اور اس کی طرف میلان ہوتا ہے۔ آپ ﷺ نے بتایا کہ اللہ نے ہمیں ایک دوسرے کا جانشین بنایا بایں طور کہ ہم ایک دوسرے کی جگہ لیتے ہیں۔ یہ کچھ لوگوں کے بعد دوسرے لوگوں کی ہاتھ میں آ جاتی ہے اور اس طرح سے اللہ تبارک و تعالیٰ دیکھتا ہے کہ ہم کیسے عمل کرتے ہیں، ہم اس کی اطاعت کرتے ہیں یا نہیں؟۔
پھر نبی ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم دنیا کے فتنے سے بچ کر رہیں اور اس سے دھوکہ نہ کھائیں کہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی بجا آوری اور اس کی منع کردہ اشیاء سے اجتناب کرنا چھوڑ دیں۔ چونکہ دنیا کی فتنہ انگیزی میں عورتوں کا بہت بڑا حصہ ہے اس لیے نبی ﷺ نے ان کے فتنے کا شکار ہونے کے خطرے سے متنبہ فرمایا اگرچہ یہ بھی دنیا ہی کے فتنے میں آتی ہیں۔ آپ ﷺ نے خبر دی کہ بنی اسرائیل کا سب سے پہلا فتنہ عورتوں کی وجہ سے تھا اور اس کی وجہ سے بہت سے صاحبِ فضیلت لوگ ہلاکت کا شکار ہو گئے۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3053

 
 
Hadith   130   الحديث
الأهمية: من حلف على يمين ثم رأى أتقى لله منها فليأت التقوى


Tema:

جو شخص کسی بات پر قسم کھا لے، پھر اس سے زیادہ پرہیزگاری والا عمل دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ پرہیزگاری والا عمل اختیار کرے۔

عن أبي طَرِيف عدي بن حاتم -رضي الله عنه- مرفوعاً: «مَن حَلَف على يَمِين ثم رأى أَتقَى لله مِنها فَلْيَأت التَّقوَى».

ابو طریف عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جو شخص کسی بات پر قسم کھا لے، پھر اس سے زیادہ پرہیزگاری والا عمل دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ پرہیزگاری والا عمل اختیار کرے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
في الحديث: أنَّ من حلَف على ترك شيء، أو فعله فرأى مخالفة ذلك خيرًا من الاستمرار على اليمين وأتقى، ترك يمينه وفعل ما هو خير، على الاستحباب والندب، فإن كان المحلوف عليه مما يجب فعله أو تركه كأن حلف ليتركنّ الصلاة أو ليشربنّ المسكر، وجب عليه الحنث والإتيان بما هو التقوى من فعل المأمور به، وترك المنهيّ عنه.
581;دیث میں اس بات کا بیان ہے کہ جس نے کسی شے کو چھوڑنے یا کرنے کی قسم اٹھائی، پھر اسے لگا کہ اس کی مخالفت کرنا قسم کو پورا کرنے سے بہتر اور زیادہ تقوی والا ہے، تو ایسے شخص کا قسم کو توڑ کر اس سے زیادہ بہتر عمل کو کرنا مستحب اور مندوب ہے۔ اگر جس شے پر قسم اٹھائی گئی ہو ایسی ہو جس کا کرنا یا چھوڑنا واجب ہے جیسے کوئی شخص یہ قسم کھائے کہ وہ نماز کو چھوڑ دے گا یا پھر کسی نشہ آور شے کو پئے گا، تو اس صورت میں اس پر قسم توڑ کر اس فعل کو سر انجام دینا واجب ہے جو تقویٰ وپرہیزگاری کا کام ہے یعنی جس کام کا حکم دیا گیا ہے اسے بجا لانا اور جس سے منع کیا گیا ہے اس سے باز رہنا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3054

 
 
Hadith   131   الحديث
الأهمية: الحياء لا يأتي إلا بخير


Tema:

حیا تو خیر ہی لاتی ہے۔

عن عمران بن حصين -رضي الله عنهما- قَالَ: قَالَ رسولُ اللَّه -صَلّى اللهُ عَلَيْهِ وسَلَّم-: «الحَيَاءُ لاَ يَأْتِي إِلاَّ بِخَيرٍ».
وفي رواية : «الحَيَاءُ خَيرٌ كُلُّهٌ» أو قال: «الحَيَاءُ كُلُّهُ خَيرٌ».

عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”حیا تو خیر ہی لاتی ہے“۔
ایک اور روایت میں ہے: «الحَيَاءُ خَيرٌ كُلُّهٌ» یعنی حیا سراپا خیر ہے۔ یا پھر آپﷺ نے یہ فرمایا: «الحَيَاءُ كُلُّهُ خَيرٌ» یعنی حیا سرتاپا خیر ہے۔

575;لحياء صفة في النفس تحمل الإنسان على فعل ما يجمل ويزين، وترك ما يدنس ويشين، فلذلك لا يأتي إلا بالخير، وسبب ورود الحديث أن رجلًا كان ينصح أخاه في الحياء، وينهاه عن الحياء، فقال له النبي -صلى الله عليه وسلم- هذا الكلام.
581;یا نفس کی ایک صفت ہے، جو انسان کو ایسے عمل پر ابھارتی ہے جو عمدگی اور زیبائش کا سبب ہو اور ایسے عمل کو ترک کرنے کی ترغیب دیتی ہے، جو گندگی اور عار کا سبب ہو۔ اس لیے حیا خیر ہی کا سبب ہوا کرتی ہے۔ اس حدیث کا سبب ورود یہ ہے کہ ایک آدمی اپنے بھائی کو حیا نہ کرنے کی نصیحت کر رہا تھا کہ نبی ﷺ نے اس سے یہ بات ارشاد فرمائی۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔ - متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3055

 
 
Hadith   132   الحديث
الأهمية: اللهم لك أسلمت، وبك آمنت، وعليك توكلت، وإليك أنبت، وبك خاصمت، اللهم أعوذ بعزتك لا إله إلا أنت أن تضلني، أنت الحي الذي لا يموت، والجن والإنس يموتون


Tema:

"اے اللہ! میں تیرے لیے فرماں بردار ہو گیا، تجھ پر ایمان لایا، تجھ پر بھروسہ کیا، تیری طرف رجوع کیا اور تیری مدد سے (کفر کے ساتھ) مخاصمت کی۔ اے اللہ! میں اس بات سے تیری عزت کی پناہ لیتا ہوں ـــــــــــ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ـــــــــــ کہ تو مجھے سیدھی راہ سے ہٹا (گمراہ کر) دے ۔تو ہی ہمیشہ زندہ رہنے والا ہے جس کو موت نہیں آ سکتی اور جن و انس سب مر جائیں گے۔

عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان يقول: «اللهم لك أَسْلَمْتُ، وبك آمنتُ، وعليك توكلتُ، وإليك أَنَبْتُ، وبك خَاصَمْتُ، اللهم أعوذ بِعِزَّتِكَ لا إله إلا أنت أن تُضِلَّنِي، أنت الحيُّ الذي لا يموتُ، والجِنُّ والإِنْسُ يموتون».

عبد الله بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی ﷺ یہ دعا کیا کرتے تھے:«اللَّهُم لَكَ أسْلَمْتُ وبِكَ آمنْتُ، وعليكَ توَكَّلْتُ، وإلَيكَ أنَبْتُ، وبِكَ خاصَمْتُ. اللَّهمَّ أعُوذُ بِعِزَّتِكَ، لا إلَه إلاَّ أنْتَ أنْ تُضِلَّنِي أنْت الْحيُّ الَّذي لاَ يَمُوتُ، وَالْجِنُّ وَالإِنْسُ يمُوتُونَ»۔
ترجمہ: اے اللہ ! میں نے تیرے ہی سامنے سر جھکایا، تجھ ہی پر ایمان لایا، میں نے تیرے ہی اوپر بھروسہ کیا اور تیری ہی طرف رجوع کیا ۔ میں نے تیری ہی مدد کے ساتھ مقابلہ کیا۔ میں تیری عزت کی پناہ مانگتا ہوں کہ تیسرے سوا کوئی دوسرا معبودِ برحق نہیں، یہ کہ تو مجھے گمراہ ہونے کے لیے چھوڑ دے، تو زندہ ہے، تجھے موت نہیں آئے گی جب کہ تمام جن و انس مر جائیں گے۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
يلتجئ النبي -صلى الله عليه وسلم- إلى ربه ويتقرب إليه في الدعاء، فيخبر -صلى الله عليه وسلم- أنه إلى ربه انقاد، وأنه فوَّض أمره كله لله ولم يعتمد على غيره، وأنه قد رجع إليه مقبلا عليه بقلبه، وأنه بقوة الله ونصره وإعانته إياه حاجج أعداء الله بما آتاه من البراهين والحجج، ثم يستعيذ النبي -صلى الله عليه وسلم- بغلبة الله ومنعته أن يهلكه بعدم التوفيق للرشاد والهداية والسداد، ويؤكد ذلك بقوله لا إله إلا أنت؛ فإنه لا يستعاذ إلا بالله، ثم يخبر النبي -صلى الله عليه وسلم- أن لربه الحياة الحقيقية التي لا يأتيها الموت بحال، وأما الإنس والجن فيموتون، وخصهما بالذكر؛ لأنهما المكلفان المقصودان بالتبليغ فكأنهما الأصل.
606;بی ﷺ دعا میں اپنے رب کی پناہ اور اس کے قرب میں آ رہے ہیں۔ آپ ﷺ بیان فرما رہے ہیں کہ وہ اپنے رب کے مطیع وفرماں بردار ہیں اور آپ نے اپنے سارے امور اللہ کو سونپ دیے ہیں اور اس کے علاوہ آپ کو کسی پر بھروسہ نہیں ہے اور یہ کہ آپ ﷺ اپنے دل و جان کے ساتھ اس کی طرف لوٹ آئے ہیں اور اسی کی طرف متوجہ ہیں اور اللہ ہی کی دی گئی قوت، اس کی مدد و نصرت اور آپ ﷺ کو جو دلائل اور حجتیں دی گئی تھیں ان سے آپ ﷺ نے اس کے دشمنوں کا مقابلہ کیا۔پھر نبی ﷺ اللہ کی غالبیت اور قوت کی پناہ لیتے ہوئے دعا کرتے ہیں کہ یہ نہ ہو کہ وہ ہدایت و راستگی کی توفیق نہ دے کر آپ ﷺ کو ہلاک کردے۔ ’’لا إله إلا أنت‘‘ کہہ کر آپ ﷺ اس کی مزید تاکید فرما رہے ہیں کہ پناہ صرف اللہ ہی سے طلب کی جاتی ہے۔ پھر نبی ﷺ بیان کر رہے ہیں کہ آپ ﷺ کے رب کی زندگی حقیقی زندگی ہے جس پر کبھی موت نہیں آتی جب کہ انسان اور جنات مر جاتے ہیں۔ آپ ﷺ نے بطور خاص انہیں ذکر کیا کیونکہ وہی مکلف ہیں اور احکامِ دین کی تبلیغ بھی انہیں کو مقصود ہے۔ گویا کہ وہ اصل ہوئے۔   --  [صحیح]+ +[متفق علیہ]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3056

 
 
Hadith   133   الحديث
الأهمية: اللهم إني أسألك الهدى والتقى والعفاف والغنى


Tema:

اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، تقویٰ، پاک دامنی، اور بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔

عن عبد الله بن مسعود -رضي الله عنه- قال: كان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- يقول: «اللهم ِإنِّي أَسأَلُك الهُدَى، والتُّقَى، والعَفَاف، والغِنَى».

ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے ”اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الْهُدَى وَالتُّقَى وَالْعَفَافَ وَالْغِنَى“. یعنی اے اللہ! میں تجھ سے ہدایت، پرہیزگاری، پاکدامنی اور دل کی بے نیازی کا سوال کرتا ہوں۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
سأل النبي -صلى الله عليه وسلم- ربه العلمَ والتوفيق للحق، وأن يُوفِّقه إلى امتثال ما أمر به وترك ما نهى عنه، وأن يعفه عن كل ما حرَّم عليه فيما يتعلق بجميع المحارم التي حرَّمها -عز وجل-، وسأله كذلك الغنى عن الخلق، بحيث لا يفتقر إلى أحد سوى ربَّه -عز وجل-.
606;بی ﷺ نے اپنے رب سے علم اور حق کی توفیق مانگی اور یہ کہ اپنے احکام کو پورا کرنے اور نواہی سے بچنے کی توفیق دے اور یہ کہ اللہ ہر قسم کے حرام سے بچائے جن کا تعلق ان تمام حرام کاموں سے ہے جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا۔ اسی طرح آپ ﷺ نے مخلوق سے استغناء و بے نیازی کا سوال کیا کہ اللہ عزّ وجلّ کے سوا کسی کا محتاج نہ بنانا۔   --  [صحیح]+ +[اسے امام مسلم نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3057

 
 
Hadith   134   الحديث
الأهمية: أستودع الله دينك، وأمانتك، وخواتيم عملك


Tema:

میں تیرا دین، تیری امانت اور تیری زندگی کے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔

كَانَ ابنُ عمرَ -رضِيَ الله عنهما- يَقُول لِلرَّجُل إِذَا أَرَادَ سَفَرًا: ادْنُ مِنِّي حَتَّى أُوَّدِعَكَ كَمَا كَان رسولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُوَدِّعُنَا، فَيقُول: «أَسْتَوْدِعُ الله دِينَكَ، وَأَمَانَتَكَ، وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ».
وعن عبد الله بن يزيد الخطمي رضي الله عنه- قال: كَانَ رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- إِذَا أَرَادَ أَنْ يُوَدِّعَ الجَيشَ، قال: «أَسْتَودِعُ الله دِينَكُم، وَأَمَانَتَكُم، وخَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُم».

جب کوئی آدمی سفر کا ارادہ کرتا تو ابن عمر رضی الله عنہما اس سے کہتے، مجھ سے قریب ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں ایسے رخصت کروں جس طرح نبی ﷺ ہمیں رخصت کرتے تھے چنانچہ وہ کہتے تھے: «أَسْتَوْدِعُ الله دِينَكَ، وَأَمَانَتَكَ، وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ» یعنی ”میں تیرا دین، تیری امانت اور تیری زندگی کے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں“۔
عبداللہ بن یزید خطمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب کسی لشکر کو رخصت فرماتے تو کہتے «أَسْتَودِعُ الله دِينَكُم، وَأَمَانَتَكُم، وخَوَاتِيمَ أَعْمَالِكُم» یعنی ”میں تمہارے دین، تمہاری امانت، اور تمہاری زندگی کے آخری اعمال کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
كَانَ ابنُ عمرَ -رضِيَ الله عنهما- يَقُول لِلرَّجُل إِذَا أَرَادَ سَفَرًا: ادْنُ مِنِّي حَتَّى أُوَّدِعَكَ كَمَا كَان رسولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- يُوَدِّعُنَا، وهذا من ابن عمر بيان لكمال حرص الصحابة -رضي الله عنهم- على التزام هدي رسول الله -صلى الله عليه وسلم-، وقوله: (إذا ودع رجلا) أي مسافرا، (أخذ بيده فلا يدعها): وهذا ما جاء في بعض الروايات، أي: فلا يترك يد ذلك الرجل من غاية التواضع ونهاية إظهار المحبة والرحمة.   ويقول -صلى الله عليه وسلم-: أي للمودع: "أستودع الله دينك" أي أستحفظ وأطلب منه حفظ دينك.   و"أمانتك" أي حفظ أمانتك، وهي شاملة لكل ما استحفظ عليه الإنسان من حقوق الناس وحقوق الله من التكاليف، ولا يخلو الرجل في سفره ذلك من الاشتغال بما يحتاج فيه إلى الأخذ والإعطاء والمعاشرة مع الناس، فدعا له بحفظ الأمانة والاجتناب عن الخيانة، ثم إذا انقلب إلى أهله يكون مأمون العاقبة عما يسوءه في الدين والدنيا.
وكان هذا من هديه أيضاً -صلى الله عليه وسلم- إذا أراد توديع الجماعة الخارجة للقتال في سبيل الله  يودعهم بهذا الدعاء الجامع ليكون أدعى إلى إصابتهم التوفيق والسداد والتغلب على الأعداء والحفاظ على فرائض الله في الغزو.
575;بن عمر رضی اللہ عنہما اس آدمی سے کہتے تھے جو سفر کرنا چاہتا، مجھ سے قریب ہو جاؤ تاکہ میں تمہیں ایسے رخصت کروں جس طرح نبی ﷺ ہمیں رخصت کیا کرتے تھے۔ یہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی طرف سے بیان ہے جس سے معلوم ہوتا ہےکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کس قدر نبی مکرم ﷺ کی سنت کے اپنانے کا اہتمام فرماتے تھے۔ اور ان کا کہنا (إذا ودع رجلا) جب کسی آدمی کو رخصت کیا کرتے تھے یعنی مسافر کو۔ (أخذ بيده فلا يدعها) اس کے ہاتھ کو پکڑے رہتے اور نہیں چھوڑتے تھے، جیسا کہ بعض روایات میں مذکور ہے یعنی نبی مکرم ﷺ انتہا درجے کی تواضع اور شفقت و محبت کا اظہار فرماتے ہوئے اس شخص کے ہاتھ کو پکڑے رہتے اور نہیں چھوڑتے تھے ، اور اُسے رخصت کرتے ہوئے کہتے’’أستودِعُ اللهَ دينكَ“یعنی میں اللہ سے تمہارے دین کی حفاظت طلب کرتا ہوں۔ ”وأمانتک‘‘یعنی تمہاری امانت کی حفاظت، یہ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی حفاظت انسان سے مطلوب ہوتی ہے خواہ وہ لوگوں کے حقوق ہوں یا اللہ کے مکلف کردہ حقوق۔
چونکہ آدمی جب سفر میں ہوتا ہے تو لوگوں کے ساتھ ضروری لین دین اور لوگوں کے ساتھ معاملات میں مشغول ہوتا ہے جس کی بناء پر اس کے لیے امانت داری کی ذمہ داری کا خیال کرنے کے ساتھ ساتھ خیانت سے بچنے کے لیے دعا فرمائی ہے، پھر جب وہ اپنے گھر لوٹے گا تو وہ ان تمام نتائج وعواقب سے محفوظ ہو گا جو اسے دین اور دنیا کے اعتبار سے ناپسند ہوتے۔
یہی نبی مکرم ﷺ کا طریقہ تھا کہ جب آپ کسی جماعت کو جنگ کے لیے رخصت فرماتے تھے تو اس جامع دعا کے ذریعہ رخصت کرتے تھے تاکہ وہ بھلائی اور کامیابی سے ہمکنار ہوسکیں اور دشمنوں پر غالب رہیں اور میدان جنگ میں بھی اللہ کے فرائض کی حفاظت کریں۔   --  [صحیح]+ +[اسے ابنِ ماجہ نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ترمذی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام نسائی نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام ابو داؤد نے روایت کیا ہے۔ - اسے امام احمد نے روایت کیا ہے۔]
 
Referência: Enciclopédia Hadith @ 3058

 
 
Hadith   135   الحديث
الأهمية: ارجعوا إلى أهليكم، فأقيموا فيهم، وعلموهم ومروهم، وصلوا صلاة كذا في حين كذا، وصلوا كذا في حين كذا، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم


Tema:

تم اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ، ان میں رہو اور انہیں (دین) سکھاؤ اور (نیکی کا) حکم دو۔ دیکھو یہ نماز فلاں وقت اور یہ نماز فلاں وقت پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص تم میں سے اذان دے اور جو تم میں سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔

عن أبي سليمان مالك بن الحويرث -رضي الله عنه- قال: أَتَينَا رسُول الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- ونَحنُ شَبَبَةٌ مُتَقَارِبُون، فَأَقَمْنَا عِندَهُ عِشْرِينَ لَيلَةً، وَكَان رَسُولُ الله -صلَّى الله عليه وسلَّم- رَحِيمًا رَفِيقًا، فَظَنَّ أَنَّا قَدْ اشْتَقْنَا أَهْلَنَا، فَسَألَنا عمَّنْ تَرَكْنا مِنْ أَهلِنا، فأَخبَرنَاه، فقال: «ارْجِعُوا إلى أَهْلِيكُم، فَأَقِيمُوا فيهم، وَعَلِّمُوهُم وَمُرُوهُم، وَصَلُّوا صَلاَةَ كَذَا في حِينِ كذَا، وصَلُّوا كَذَا في حِينِ كَذَا، فَإِذا حَضَرَتِ الصلاةُ فَلْيُؤذِّن لكم أَحَدُكُم وَلْيَؤُمَّكُم أكبركم».
زاد البخاري في رواية له: «وصَلُّوا كَمَا رَأَيتُمُونِي أُصَلِّي».

ابو سلیمان مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم سب نوجوان اور ہم عمر تھے۔ ہم آپ ﷺ کے ساتھ بیس راتیں رہے۔ آپ ﷺ بہت رحم دل اور نرم خو تھے۔ آپ ﷺ کو خیال ہوا کہ ہمیں اپنے گھر کے لوگ یاد آ رہے ہیں۔ چنانچہ آپ ﷺ نے ہم سے ہمارے ان اہل خانہ کے بارے میں پوچھا جنہیں ہم پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ ہم نے آپ ﷺ کو اس کے بارے میں بتایا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم اپنے گھر والوں کے پاس لوٹ جاؤ، ان میں رہو اور انہیں (دین) سکھاؤ اور (نیکی کا) حکم دو۔ دیکھو یہ نماز فلاں وقت اور یہ نماز فلاں وقت پڑھنا۔ جب نماز کا وقت ہو جائے تو ایک شخص تم میں سے اذان دے اور جو تم میں سے بڑا ہو وہ نماز پڑھائے۔ امام بخاری کی روایت میں یہ الفاظ زیادہ ہیں کہ ”اور نماز اسی طرح پڑھو جیسے تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے“۔

 
Explicação Hadith بيان الحديث
 
قال مالك -رضي الله عنه-: "أتينا رسول الله -صلى الله عليه وسلم- ونحن شببة متقاربون"، وهذا في عام الوفود في السنة التاسعة من الهجرة، وكانوا شبابا فأقاموا عند النبي -صلى الله عليه وسلم- عشرين ليلة.
جاءوا من أجل أن يتفقهوا في دين الله، قال مالك: "وكان رسول الله -صلى الله عليه وسلم- رحيما رفيقا فظن أنا قد اشتقنا أهلنا" يعني اشتقنا إليهم، "فسألنا عمن تركنا من أهلنا فأخبرناه فقال: ارجعوا إلى أهليكم فأقيموا فيهم وعلموهم ومروهم وصلوا صلاة كذا في حين كذا، فإذا حضرت الصلاة فليؤذن لكم أحدكم وليؤمكم أكبركم" زاد البخاري "وصلوا كما رأيتموني أصلي".
فدل هذا أن النبي -صلى الله عليه وسلم- كان مشهورا بالرحمة والرفق، فكان أر